انسانی تاریخ میں 2011 میں ایک دلچسپ سنگِ میل آیا۔ یہ پہلی بار تھا جب دنیا بھر میں مرنے والوں میں غیرمتعدی امراض (جیسا کہ ہارٹ فیل، سٹروک، ذیابیطس وغیرہ) سے ہونے والی اموات کی تعداد جراثیم سے ہونے والے امراض کی اموات سے زیادہ ہو گئی۔ ہم اب اس عہد میں ہیں جہاں پر ہمیں مارنے والی بڑی شے ہمارا لائف سٹائل ہے۔
اموات میں سے بیس فیصد اچانک ہو جانے والی ہیں۔ جیسا کہ ہارٹ اٹیک یا گاڑی کا حادثہ۔ مزید بیس فیصد وہ ہیں جو مختصر بیماری کے بعد ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر یعنی ساٹھ فیصد میں صحت میں طویل زوال آتا ہے۔ ہم لمبی عمر جی رہے ہیں لیکن ہماری موت بھی لمبی ہو رہی ہے۔ اکانومسٹ رسالے نے 2017 میں لکھا کہ “65 سال کی عمر کے بات وفات پانے والے امریکیوں میں سے ایک تہائی اپنی زندگی کے آخری تین ماہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں گزارتے ہیں”۔
طویل عمری کے اعداد و شمار میں پچھلی ایک صدی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوے فیصد لوگ پینسٹھ سال کی عمر تک پہنچیں گے اور زیادہ تر اچھی صحت کے ساتھ۔
لیکن اب ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں جہاں مزید بہتری کم سے کم ہو رہی ہے۔ ایک حساب کے مطابق، اگر دنیا میں ہر قسم کے کینسر کا علاج مل جائے تو اوسط متوقع عمر میں صرف 3.2 سال کا اضافہ ہو گا۔ اگر ہر قسم کے دل کے مرض کا مل جائے تو 5.5 سال کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے وفات پانے والوں کی بڑی تعداد عمررسیدہ ہوتی ہے۔ اور اگر کینسر یا دل کا مرض نہ مار دے تو کچھ اور وجہ بن جائے گی۔ لیونارڈ ہے فلک کے مطابق، الزائمر کا خاتمہ اوسط متوقع عمر میں صرف انیس دن کا اضافہ کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متوقع عمر میں غیرمعمولی اضافے کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ ڈینیل لیبرمین کہتے ہیں کہ “1990 کے بعد سے زندگی میں اضافے کے ہر سال میں دس ماہ صحتمند زندگی کے ہوتے ہیں”۔ پچاس سال سے زائد عمر میں سے نصف لوگ کسی قسم کی دائمی تکلیف یا معذوری کا شکار ہیں۔ ہم نے زندگی کے دورانیے میں اضافے میں جتنی کامیابی حاصل کی ہے، زندگی کی کوالٹی میں اضافی میں اتنی کامیابی حاصل نہیں کی۔ امریکہ کے اعداد و شمار کے مطابق معمر آبادی پر صحت کا آنے والا خرچ کل بجٹ کا ایک تہائی ہے، جبکہ ہسپتالوں میں داخل مریضوں کی نصف تعداد ان کی ہے۔ سی ڈی سی کے حساب کے مطابق بوڑھوں کو گر کر چوٹ لگنے کے علاج پر آنے والا خرچ اکتیس ارب ڈالر ہے۔
ریٹائر ہو جانے کے بعد زندگی کی مدت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں طویل مدت میں اس سب کی پلاننگ کا نہیں سوچا گیا۔ آنے والے وقت میں معاشروں اور افراد کے لئے یہ بڑا چیلنج ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیلا پڑ جانا، چستی اور لچک نہ رہنا، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا آہستہ آہستہ ہونے والا انحطاط ۔۔۔ یہ عمر رسیدگی ہے۔ یہ ہر نوع میں موجود ہے۔ اس کے عوامل جاندار کے اندر ہی ہیں۔ اچھا طرزِ زندگی آپ اس کے پراسس کو سست رفتار کر سکتا ہے لیکن ہمیشہ کا فرار ممکن نہیں۔ ہم سب موت کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ صرف رفتار کا فرق ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...