ضرورت سے زیادہ یا بلاوجہ علاج کا مسئلہ عام ہے۔ اس کی ایک وجہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہونا ہے لیکن دوسری وجوہات بھی ہیں۔
ہم ہیلتھ کئیر کے اس عجیب مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں پر دواساز ادارے کئی بار ایسی ادویات بنا رہے ہیں جو کہ بالکل وہی کام کرتی ہیں جو کہ ان کا دعویٰ ہے لیکن مجموعی طور پر اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال ایٹنولول (atenelol) ہے۔ یہ ایک بِیٹا بلاکر ہے جو بلڈپریشر کم کرنے کیلئے ہے۔ 1976 سے اسی تجویز کیا جاتا ہے۔ 2004 میں چوبیس ہزار مریضوں پر ہونے والی سٹڈی سے پتا لگا کہ یہ دوا بلڈ پریشر کم کرتی ہے (یعنی وہی کرتی ہے جو اس کا دعویٰ ہے) لیکن اس سے ہارٹ اٹیک ہونے یا دوسرے سنگین مسائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ متوقع زندگی ویسی ہی رہتی ہے۔ صرف یہ کہ اس دوران بلڈ پریشر کے نمبر اچھے ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دواساز اداروں کے مارکٹنگ کے بجٹ اب ریسرچ بجٹ سے زیادہ ہیں۔ “ڈاکٹر کو اپنی دوا تجویز کرنے پر کیسے مائل کیا جائے؟” کا سوال موثر دوا بنانے سے زیادہ توجہ، وقت اور بجٹ لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادویات بنانے والے ادارے ہمیشہ اخلاقیات کی پاسداری بھی نہیں کرتے۔ پرڈو فارما کو 2007 میں ساٹھ کروڑ ڈالر کا جرمانہ دینا پڑا کیونکہ ان کی طرف سے آکسی کونٹن کے بارے میں فراڈ دعوے کئے گئے تھے۔ مرک کو پچانوے کروڑ ڈالر اپنی دوا Vioxx کے ستھ مسائل چھپانے پر دئے گئے۔ اس دوا کو مارکیٹ سے ہٹا لیا گیا لیکن نہ جانے یہ کتنے لوگوں کیلئے ہارٹ اٹیک کی وجہ بن چکی تھی۔ گلیکسو سمتھ کلائن کے پاس جرمانے ادا کرنے کا ریکارڈ ہے۔ یہ تین ارب ڈالر کی رقم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر یہ فراڈ الگ رکھ دئے جائیں تو ادویات کی ڈویلپمنٹ خود میں آسان نہیں۔ ہر جگہ پر قوانین موجود ہیں جو یہ لازم کرتے ہیں کہ ان کو جانوروں اور انسانوں پر ٹیسٹ کیا جائے۔ اب ایک مسئلہ یہ ہے کہ لازمی نہیں کہ جانوروں پر ٹیسٹ بہت اچھی انفارمیشن دے سکیں۔جانوروں کا میٹابولزم اور بائیولوجی الگ ہے۔ ان کی تمام بیماریاں انسان والی نہیں ہیں۔ مثلاً، چوہے کھانستے نہیں ہیں۔
جب الزائمر کی دوا کا ٹیسٹ کرنا تھا تو ایک مسئلہ یہ تھا کہ چوہوں کو الزائمر نہیں ہوتا۔ پہلے ایسے چوہے تیار کئے گئے جن کو الزائمر ہو سکے۔ انہیں الزائمر کروایا گیا۔ پھر ان پر دوا (BACE inhibitors) ٹیسٹ کی گئی جو بہت موثر رہی۔ لیکن اس دوا کو انسانوں پر ٹیسٹ کیا گیا تو یہ بیماری مزید خراب ہو گئی۔ 2018 میں یہ ٹیسٹ روک دئے گئے۔
ایک اور مسئلہ کلینکل ٹرائل کے ساتھ ہے۔ اس میں حصہ لینے والوں میں ایسے مریضوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کو کوئی اور مرض نہ ہو۔ ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ یہ معلوم نہ ہو پائے کہ دوا کا اثر بیماری پر کس طرح سے ہے۔ (یہ confounding variables ہٹانے کا مسئلہ ہے)۔ جبکہ دوسری طرف، اصل دنیا میں یہ ویری ایبل تو موجود ہوتے ہیں۔ ٹرائلز سے ہمیں یہ پتا نہیں لگتا کہ یہ والی دوا کسی اور دوا سے ملکر کیسے اثر کرتی ہے۔
تمام ادویات فوائد اور خطرات کے ساتھ آتی ہیں اور عام طور پر انہیں اچھی طرح سٹڈی نہیں کیا گیا ہوتا۔
اس لئے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید میڈیسن کا مثبت اثر بلاشبہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پرفیکٹ ہونے کے قریب بھی نہیں۔
ایسے بہت سے میڈیکل پروسیجر ہیں جو مفید نہیں ہیں۔
یہ سادہ حقیقت ہے کہ میڈیکل سائنس خود میں اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتی۔ لیکن اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے فیکٹر بھی بہت اثر رکھتے ہیں۔ 2016 میں نیوزی لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق نے اس وقت سرپرائز دیا جب اس سے پتا لگا کہ ایسے ڈاکٹر جو ہمدردی میں زیادہ سکور رکھتے ہیں ۔۔۔ ان کے علاج سے ہونے والی پیچیدگیاں چالیس فیصد تک کم ہوتی ہیں۔
معالج کے لئے روزمرہ کی انسانی خاصیتیں ۔۔۔ empathy اور common sense ۔۔۔۔ اتنی ہی اہم ہیں جتنا کہ ٹیکنالوجی کے جدید آلات۔ اور یہ معالج کے پاس دستیاب وہ اوزار ہیں جن کا استعمال کرنے میں غلط یا مضر ہونے کا امکان نہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...