درد ایک عجیب تنگ کرنے والی شے ہے۔ بیک وقت ضروری بھی اور ناپسندیدہ بھی۔ اور یہ انسانی تاریخ میں میڈیکل سائنس کے مرکز پر رہی ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
کئی بار یہ ہمیں محفوظ رکھتی ہے۔ جیسا کہ گرم ریت پر ننگے پیر چلنے سے ہونے والی یا بجلی کا جھٹکا محسوس ہونے پر ہونے والی درد۔ ہم خطرے سے چوکس رہتےہیں اور جسم کی پروگرامنگ کسی بھی ضرر رساں شے کو ردِ عمل دینے اور وہاں سے ہٹ جانے کیلئے ہے۔ یہ دماغ کو خبر پہنچنے سے بھی پہلے ہو جاتا ہے۔ لیکن بہت بار درد بس ہوتی رہتی ہے اور اس کا کوئی مقصد و منشا نہیں ہوتا۔ درد کے چالیس فیصد کیس ایسے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد تضادات سے بھری پڑی ہے۔ یہ اس وقت سب سے نمایاں ہوتی ہے جب چوٹ لگ جائے اور یہی اس کا کام ہے۔ لیکن کبھی میٹھی اور مزیدار درد بھی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ لمبی دوڑ کے بعد جسم میں ہونے والا درد یا سخت سردی میں تیز گرم پانی میں نہاتے ہوئے ہونے والی خوشگوار تکلیف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار درد کی کچھ بھی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ اور اس کا سب سے تکلیف دہ مظہر phantom limb pain ہے۔ اس سے گزرنے والے کو جسم کے اس حصے میں تکلیف ہوتی ہے جو کسی حادثے یا آپریشن میں کاٹا جا چکا ہوتا ہے۔ جب ایسا بازو تکلیف دیتا ہے جو موجود ہی نہ ہو، تو پھر یہ ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔اس سے برا یہ کہ نارمل درد زخم بھر جانے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے لیکن فینٹم تکلیف عمر بھر رہتی ہے۔ اس کی کوئی وضاحت نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ گمشدہ اعصابی ریشے سے سگنل موصول نہ ہونے کو دماغ ایسی بڑی چوٹ کے طور پر تصور کرتا ہے جہاں خلیے بھی مر گئے ہیں اور الارم بج جاتا ہے جو بند بھی نہیں ہوتا۔ اب اگر جسم کا کوئی حصہ کاٹنا ہو تو پہلے اسے کئی روز تک سُن رکھا جاتا تہے تا کہ دماغ کو تیاری کا موقع مل سکے۔ اس طریقے سے فینٹم تکلیف کو دور کرنے میں بڑی مدد ملی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...