دس سال کی تحقیق کے بعد لندن کے امپریل کالج کے محقق رسل فوسٹر نے ایسی چیز کو ثابت کر دیا جو اس قدر حیرت انگیز تھی کہ بہت سے لوگوں نے پہلے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ فوسٹر کو ہماری آنکھوں میں تیسرے قسم کے ریسپٹر ملے تھے۔ (rods اور cones کو ہم پہلے سے جانتے تھے)۔ یہ photosensitive retinal ganglion cells تھے۔ ان کا تعلق بصارت سے نہیں تھا۔ یہ صرف اس بات کا پتا لگاتے تھے کہ روشنی کتنی ہے تا کہ پتا لگایا جا سکے کہ دن ہے یا رات۔ یہ اس انفارمیشن کو دماغ میں نیورونز کے دو چھوٹے سے بنڈل کی طرف روانہ کر دیتے تھے۔ (ایک بنڈل دماغ میں دائیں طرف اور ایک بائیں طرف)۔ یہ سرکیڈین ردھم کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جسم کے الارم کلاک ہیں اور بتاتے ہیں کہ کب اٹھ جانا ہے اور کب سونے کا وقت ہو گیا۔
اس میں تو حیرت کی بات نہیں لگتی لیکن جب فوسٹر نے اپنی دریافت کا اعلان کیا تو اس نے آنکھ کے شعبے میں طوفان اٹھا دیا۔ کسی کو یقین نہیں آیا کہ اتنی بنیادی قسم کی شے اتنا عرصہ کیسے اوجھل رہ سکتی ہے۔ سامعین میں سے ایک نے اٹھ کر کہا کہ “بکواس” اور کمرہ چھوڑ کر چلے گئے۔
فوسٹر ٹھیک نکلے۔ ان کا کہنا ہے کہ “سب کو یہ تسلیم کرنے میں دشواری ہو رہی تھی کہ انسانی آنکھ کا مطالعہ 150 سال سے کیا جا رہا ہے اور اس میں ایک ایسی قسم کے خلیات موجود ہیں جس کا پتا ہی نہیں۔
اس تیسری ریسپٹر میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا بصارت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک خاتون کی بینائی جینیاتی بیماری کی وجہ سے مکمل طور پر جا چکی تھی۔ ہم نے اسے کہا کہ وہ بتائے کہ کمرے میں روشنی ہے یا بجھا دی گئی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ مذاق نہ کریں، مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے کہا کہ اندازہ تو لگائیں۔ اس کا لگایا گیا اندازہ ہر بار درست تھا۔ اگر اس کے پاس روشنی “دیکھنے” کا طریقہ نہیں تھا لیکن اس کا دماغ اسے بالکل ٹھیک معلوم کر لیتا تھا۔ وہ اس دریافت پر ششدر رہ گئی۔ اور ہم بھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوسٹر کی دریافت کے بعد اس پر بہت کام ہو چکا ہے۔ سائنسدان معلوم کر چکے ہیں کہ نہ صرف ہمارے دماغ میں جسمانی گھڑی ہے بلکہ ہر جگہ پر ہے۔ پتے، جگر، دل، گردے، چربی کے ٹشو، پٹھوں میں ۔۔۔ اور یہ اپنے ٹائم ٹیبل پر چلتے ہیں۔ کب کونسا ہارمون ریلیز ہونا ہے۔ کب کس عضو کو کتنا فعال ہونا ہے۔
دماغ کا یہ حصہ پینییل گلینڈ کے ساتھ ملکر کام کرتا ہے۔ یہ مٹر کے سائز کا سٹرکچر ہے جو سر کے درمیان میں ہے۔ ڈیکارٹ کا کہنا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں روح بستی ہے۔ اس کا اصل فنکشن میلاٹونن پیدا کرنا ہے۔ یہ ہارمون دن کی لمبائی کا حساب رکھتا ہے۔ اس کی دریافت 1950 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ میلاٹونن اور نیند کا تعلق کیسے بنتا ہے؟ اس کا ٹھیک علم نہیں۔ اس کی سطح شام کو بڑھنے لگتی ہے اور آدھی رات کو سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ منطقی طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس کی سطح زیادہ ہونے کا تعلق نیند سے ہو گا۔ لیکن وہ جانور جو رات کو جاگتے ہیں، اس کی سطح بلند ہونے کے وقت سب سے زیادہ چست ہوتے ہیں۔ پینیل نہ صرف دن اور رات کا ردھم بلکہ موسموں کی تبدیلیوں کا خیال بھی رکھتا ہے۔ یہ سرمائی نیند یا موسم کے حساب سے افزائشِ نسل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ موسموں کے حساب کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے لیکن ہم زیادہ تر اسے نوٹ نہیں کرتے۔ مثلاً، گرمیوں میں آپ کے بالوں کے بڑھنے کی رفتار سردیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ڈیوڈ برین برج کا کہنا ہے “پینیل ہماری روح نہیں، ہمارا کیلنڈر ہے”۔ لیکن ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ہاتھی اور بحری گائے (dugong) سمیت کچھ جانوروں میں پینیل نہیں ہوتا لیکن انہیں فرق نہیں پڑتا۔
میلاٹونن کا مالیکیول سب ہی کے پاس ہے۔ بیکٹیریا، جیلی فش، پودوں کے پاس بھی۔ اور دن کے ردھم کا اس سے تعلق ہے۔ انسانوں میں اس کی پیداوار عمر کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔ ستر سال کے شخص میں یہ بیس سالہ شخص کے مقابلے میں ایک چوتھائی پیدا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اور اس کے کم ہونے کا اثر کیا ہے؟ ان کے جواب ابھی ہمیں معلوم نہیں ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...