پیٹر میڈاوار لبنانی نژاد سائنسدان تھے جو خود برازیل میں پیدا ہوئے اور نوجوانی میں برطانیہ آ گئے۔ یہ بیسویں صدی کی سائنس کا بڑا نام ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت میں کیا گیا ان کا کام ان کیلئے وجہِ شہرت بنا۔ اور یہ کام امیون سسٹم پر ہونے والا ابتدائی کام تھا۔
میڈاوار آکسفورڈ میں اپنے باغ میں دھوپ سینک رہے تھے جب انہوں نے آسمان سے ایک جنگی جہاز گرتے دیکھا۔ یہ جہاز ان کے گھر سے صرف دو سو گز دور کریش ہو گیا۔ پائلٹ زندہ بچ گئے لیکن جسم جھلس گیا تھا۔ فوجی ڈاکٹروں نے اگلے روز میڈاوار کو بلایا کہ وہ نوجوان پائلٹ کو دیکھیں۔ میڈاوار اینٹی بائیوٹک پر تحقیق کر رہے تھے اور انہیں اس لئے بلایا گیا تھا کہ شاید وہ کچھ مدد کر سکیں۔ یہ ان کے لئے ایک ایسے سفر کا آغاز تھا جو انہیں نوبل انعام تک لے گیا۔
ڈاکٹروں کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔ یہ جلد کی پیوندکاری کا تھا۔ اگر کسی ایک شخص سے جلد حاصل کی جائے اور اسے دوسرے شخص میں پیوند کیا جائے تو شروع میں جسم اسے قبول کر لیتا ہے لیکن یہ جلد ہی مرجھا جاتی ہے اور مردہ ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے نے میڈاوار کی توجہ کھینچ لی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جسم ایک ایسی شے کو مسترد کر دیتا ہے جو واضح طور پر مفید ہے؟ انہوں نے لکھا، “کلینک میں ہونے والا کام اچھا بھی ہے اور ضروری بھی۔ یہ ٹرانسپلانٹ تکلیف اور مشکل سے نجات دلا سکتا ہے۔ لیکن جلد کے ان پیوندوں کے ساتھ جسم ویسا سلوک کرتا ہے جیسے ان کی تباہی ہی ان کا علاج ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیال کیا جاتا تھا کہ سرجری کی تکنیک میں کچھ مسئلہ ہے اور اگر سرجن اپنی تکنیک کی خامیوں کو ختم کر سکیں تو یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن میڈاوار نے ایک اور چیز دریافت کی۔ اگر وہ اور ان کے ساتھی جلد کا دوسرا پیوند لگاتے تھے تو اس بار جسم اسے پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے مسترد کر دیتا تھا۔ میڈاوار نے بعد میں معلوم کیا کہ امیون سسٹم اس بات کی تربیت لیتا ہے کہ اپنے نارمل اور صحت مند خلیات پر حملہ نہ کیا جائے۔
تجربات میں انہوں نے معلوم کیا کہ اگر ایک چوہے سے دوسرے میں جلد لگائے جائے تو یہ اس وقت کام کر جاتا ہے اگر جلد لینے والا چوہا بہت کم عمر ہو۔ اور اگر یہ بڑی عمر کا ہو چکا ہو تو پھر پیوند قبول نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ چھوٹی عمر میں جسم اس بات کو سیکھتا ہے کہ کس پر حملہ کرنا ہے اور کس پر نہیں۔ اگر ابتدائی زندگی میں یہ تربیت ہو جائے کہ اس جلد پر حملہ نہیں کرنا تو پھر ہی جسم اسے قبول کرتا ہے۔
یہ وہ بصیرت تھی جس کی دریافت پر میڈاور کو نوبل انعام ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوڈ بین برج لکھتے ہیں۔ “اگرچہ آج ہمارے لئے یہ عام بات ہے لیکن میڈاوار کی بڑی دریافت تھی کہ انہوں نے بڑے اہم موقع پر ٹرانسپلانٹ اور امیون سسٹم میں تعلق تلاش کر لیا تھا اور یہ میڈیکل سائنس کے لئے بڑا ہی اہم قدم تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ امیونیٹی اصل میں ہوتی کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...