باوقار چال کا مشکل چیلنج ہم آسانی سے اپنی جسمانی ڈیزائن کی وجہ سے کر لیتے ہیں۔ سیدھی گردن، لچکدار کمر، درمیان میں کھوپڑی، بڑے گھٹنے، اندر کی طرف آنے والی ران کی ہڈی ہمارے جسمانی اوزار ہیں۔ غیرشعوری طور پر مسلسل ایک پیر پر ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں آگے دھکیلنے کے لئے ہمارے کولہے کے ساتھ بہت بڑے پٹھے (gluteus maximus) ہیں۔ اکیلز ٹینڈن ہے۔ یہ کسی اور جاندار میں نہیں۔ ہمارے پیر محراب کی شکل کے ہیں جو اچھال فراہم کرتے ہیں۔ پُرخم ریڑھ کی ہڈی ہے جس پر وزن کی تقسیم ہوتی ہے۔ اور اعصاب اور خون کے نالیوں کے راستوں کا ڈیزائن اسی کے مطابق ہے۔ یہ سب ہمارے سر کو پیروں کے عین اوپر رکھتا ہے۔ اور اس بات کے لئے کہ اس مشقت سے پیدا ہونے والی حرارت خارج ہوتی رہے، ہمارے بال نہیں اور پسینے کے بہت سے غدود ہیں۔
اور ان سب کے علاوہ، ہمارے سر کا ڈیزائن بڑا منفرد ہے۔ چہرہ چپٹا ہے اور تھوتھنی موجود نہیں۔ پیشانی اونچی ہے جو ہمارے متاثر کن دماغ کو جگہ دیتی ہے۔ دانت چھوٹے اور جبڑا نازک ہے۔ کھانا پکا لینے کی صلاحیت کی وجہ سے کمزور bite کا نقصان نہیں۔ منہ کے اندر جگہ چھوٹی ہے۔ زبان چھوٹی اور گول ہے۔ نرخرہ نیچے ہے۔ اور اس وجہ سے صوتی نالی ہماری گویائی کی صلاحیت ممکن کرتی ہے۔ چلنا اور بولنا ساتھ ساتھ ہی ہیں۔ ہمارے جیسے چھوٹے جاندار کے لئے بڑے شکار باہمی رابطے اور پلاننگ کے بغیر شاید نہ ہو سکتے۔
سر کے پچھلی طرف ایک لیگامنٹ ہے۔ دیکھنے میں عام لگنے والا یہ لیگامنٹ بھی بڑے کام کی شے ہے۔ یہ دوسرے جانداروں میں نہیں۔ یہ nuchual ligament ہے اور اس کا صرف ایک ہی کام ہے۔ بھاگتے وقت سر کو سیدھا رکھنا۔ طویل بھاگنا وہ کام ہے جو ہم بہترین طریقے سے کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بہت تیزرفتار مخلوق نہیں۔ ہم میں سے تیزترین بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر سکتے ہیں لیکن مختصر وقت کے لئے۔ لیکن کسی گرم دن میں ہرن یا جنگلی بھینسے سے انسان کا مقابلہ کروا دیا جائے اور اسے خراماں خراماں بھاگنے دیا جائے تو انسان آسانی سے جیت جائے گا۔ ہمارا پسینہ درجہ حرارت کم کر دیتا ہے جبکہ چوپائیوں کو درجہ حرارت کم رکھنے کیلئے ہانپنا پڑتا ہے۔ بڑے جانوروں میں سے زیادہ تر نو میل تک بھی نہیں بھاگ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اناٹومی کی یہ والی تبدیلیاں تھیں جنہوں نے ایک الگ ہی جینس شروع کیا۔ یہ ہومو تھا۔
چلنا اور دوڑنا حرکت کے دو بڑے مختلف طریقے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان میں صرف رفتار کا فرق ہے۔ لوسی چل سکتی تھی اس کی جسمانی ساخت بھاگنے والی نہیں تھی۔ یہ صلاحیت بعد میں آئی ہے۔
لائف سٹائل اور اناٹومی کی تبدیلیاں سست رفتاری سے آتی ہیں۔ فوسل سے ملنے والے شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ چلنا ساٹھ لاکھ سال پہلے آیا لیکن طویل بھاگنے کی صلاحیت کیلئے مزید چالیس لاکھ سال درکار تھے۔ نوکیلے نیزے اس سے پندرہ لاکھ سال بعد آئے، لیکن اس سے قبل ہی ہمارے قدیم اجداد کامیابی سے بڑے شکار کرنے کا فن آج سے انیس لاکھ سال قبل حاصل کر چکے تھے، اور اس کی وجہ ہمارا ایک اور حربہ تھا۔ اور یہ پھینکنے کی مہارت تھی۔
پھینکنے کے لئے جسم میں تین اہم تبدیلیاں ضروری ہیں۔ اونچی اور سبک دست کلائی، ڈھیلے اور متحرک کندھے اور اوپر والا بازو جو ایسا مومنٹم بنا سکے۔ انسانوں میں کندھے کا جوڑ کولہے کی طرز کا نہیں۔ یہ ڈھیلا اور کھلا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارا کندھا آزادانہ گھوم سکتا ہے۔ اور قوت سے پھینکنے کیلئے یہ ضروری ہے۔ اس سے ہونے والا نقصان یہ ہے کہ ہمارا کندھا اتر سکتا ہے۔
پھینکنے کے لئے ہم پورا جسم استعمال کرتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی شے دور تک پھینکیں۔ آپ کو کامیابی نہیں ہو گی۔ اچھی تھرو کے لئے کلائی اور دھڑ کی حرکت، قدم لینا، بازو کو بہت پیچھے تک لے جانا اور پھر تیزرفتاری سے آگے لانا شامل ہے۔ اور اگر اسے ٹھیک کیا جائے تو ہم بہت تیزرفتاری سے چیز پھینک سکتے ہیں۔ کرکٹ میں فاسٹ باولر نوے میل فی گھنٹہ سے زیادہ تک گیند پھینک لیتے ہیں۔ اور اگر گیند کی جگہ پتھر تھام لیا جائے تو ابتدائی شکاریوں کو دوسرے جانوروں پر اس وجہ سے شکار میں سبقت ملی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ٹانگوں پر چلنے کے نتائج ہیں۔ کمردرد اور گھٹنے کی درد ان میں سے ہے۔ اور بچے کی پیدائش کے وقت کی تکلیف اور خطرہ بھی اسی کی قیمت ہے۔ زمین پر کوئی بھی اور جاندار نہیں جہاں پیدائش کے وقت اموات کی تعداد انسان کے برابر ہو۔ زچہ اور بچہ کی اموات کا سدِباب وہ مسئلہ ہے جس کا بڑی حد تک حل میڈیکل سائنس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...