گردے بڑے محنتی اعضا ہیں۔ ہر روز یہ 190 لٹر پانی اور ڈیڑھ کلوگرام نمک کو کو پراسس کرتے ہیں۔ اور اپنے کام کے مقابلے میں یہ بہت چھوٹے سائز کے ہیں۔ ایک گردے کا وزن صرف 110 گرام ہے۔ یہ پسلیوں کے بالکل نیچے ہیں۔ دایاں گردہ ہمیشہ بائیں گردے سے کچھ نیچے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ پر جگر اسے نیچے دھکیلتا ہے۔ اس کا بنیادی کام فاضل مادے فلٹر کرنا ہے۔ لیکن یہ خون کی کیمسٹری کو بھی ریگولیٹ کرتے ہیں۔ بلڈ پریشر برقرار رکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ وٹامن ڈی کا میٹابولزم کرتے ہیں۔ اور جسم میں نمک اور پانی کا نازک توازن برقرار رکھتے ہیں۔ زیادہ نمک کھا لیں تو گردے خون میں سے اضافی نمک فلٹر کر کے مثانے کو بھیج دیں گے تا کہ یہ جسم سے خارج ہو جائے۔ کم نمک کھائیں تو یہ خارج ہونے سے پہلے اسے واپس منگوا لیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر طویل عرصے تک ان سے ایسی فلٹرنگ والا کام کرواتے رہیں تو یہ اپنا کام ٹھیک ٹھیک کرنا بند کر دیتے ہیں۔ اور ان کی ایفی شنسی گرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسم میں سوڈیم کی سطح اوپر کی طرف رینگنے لگتی ہے اور ساتھ ہی بلڈ پریشر بھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے اعضا کی طرح، گردے بھی عمر کے ساتھ اپنے فنکشن میں ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں۔ چالس سال سے ستر سال کے درمیان ان کی فلٹر ہونے کی صلاحیت میں پچاس فیصد تک کمی آ چکی ہوتی ہے۔ اس میں پتھری بننا عام ہے۔ اس کے علاوہ بھی دوسری بیماریاں آ سکتی ہیں۔ گردے کی بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح میں 1990 سے اب تک ستر فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے عام وجہ ذیابیطس ہے۔ موٹاپا اور بلند فشارِ خون کا ان خرابیوں میں بڑا ہاتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردے جو شے خون سے نکال لیتے ہیں، وہ مثانے کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں گردے ایک ٹیوب کے ذریعے اس سے منسلک ہیں جس کو یوریٹر کہا جاتا ہے۔ مثانہ ایسا عضو ہے جو کوئی ہارمون پیدا نہیں کرتا اور اس کا جسم کی کیمسٹری میں ہاتھ نہیں۔
مثانہ ایک غبارے کی طرح ہے۔ یعنی اس کا ڈیزائن ایسا ہے کہ یہ پھولتا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً چھ سو ملی لیٹر آ سکتے ہیں۔ مردوں میں خواتین کے مقابلے میں تھوڑا سا زیادہ۔ عمر کے ساتھ اس کی لچک میں کمی آتی ہے اور یہ اتنا زیادہ پھیل نہیں پاتا۔ یہ ایک وجہ ہے جس باعث زیادہ عمر کے لوگ جلد ٹوائلٹ جاتے ہیں۔
یہ سمجھا جاتا رہا تھا کہ اگر یہاں پر انفیکشن نہ ہو تو مثانہ اور پیشاب جراثیم سے پاک ہوتے ہیں۔ یہاں پر کوئی مستقل کالونی نہیں رہ پاتی۔ لیکن یہ درست نہیں۔ چند جراثیم یہاں ہوتے ہیں لیکن زیادہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے اور گردے کی طرح مثانے میں بھی ایک بدقسمت صفت ہے۔ اور وہ یہ کہ یہاں پر پتھری بن سکتی ہے۔ پتھری کیلشم اور نمکیات کا سخت گیند ہے۔ صدیوں سے یہ انسانوں کو تنگ کرتی رہی ہیں۔ لیکن چونکہ سرجری کے اچھے طریقے نہیں تھے، اس لئے انہیں صرف اسی وقت چھیڑا جاتا تھا ناقابلِ برداشت ہو جائے اور کئی بار اسے بہت بڑے سائز کا ہو جانے کا موقع مل جاتا تھا۔
اس کی سرجری طویل عرصے تک ایک بھیانک پروسیجر رہا۔ یہ تکلیف والا، خطرناک اور ذلت آمیز آپریشن تھا۔ مریض کو نشہ آور اشیا دی جاتی تھیں۔ ان کو میز پر بڑی تکلیف دہ لٹا کر چار مضبوط لوگوں سے ان کو پکڑوا کر یہ کیا جاتا تھا۔ (آپریشن اور لٹانے کے طریقہ کی تفصیل اس فورم کے لئے نامناسب ہے)۔ اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بہترین سرجن وہ سمجھے جاتے تھے جو یہ کام کم سے کم وقت میں کر لیں۔
پتھری نکالنے کا سب سے مشہور آپریشن سیموئل پیپس کا تھا۔ اور ان کی پتھری ٹینس کی گیند کے سائز کی تھی۔ یہ آپریشن تھامس ہولیر نے کر کے اس کو مثانے سے نکالا تھا۔ یہ آپریشن صرف پچاس سیکنڈ میں مکمل ہوا تھا لیکن پیپس ہفتوں تک بستر سے نہیں اٹھ سکے تھے۔
ہولیر نے اس آپریشن کے لئے چوبیس شلنگ معاوضہ لیا تھا اور یہ پیپس کے لئے اچھا سودا تھا۔ ہولیر نہ صرف تیزی سے آپریشن کرتے تھے بلکہ ان کے مریض عام طور پر زندہ بچ بھی جایا کرتے تھے۔ ایک سال میں انہوں نے ایسے چالیس آپریشن کئے جن میں سے کوئی بھی فوت نہیں ہوا۔ اور یہ سترہویں صدی کے معیار کے مطابق غیرمعمولی کامیابی تھی۔
اس وقت کے ڈاکٹروں کے پاس جراثیم کش ادویات تو نہیں تھی۔ لیکن بہترین کے پاس مہارت اور ذہانت موجود تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپس ہر سال اس آپریشن کی سالگرہ خاص کھانے اور دعائیہ تقریب کے ساتھ مناتے رہے۔ اپنا پتھر انہوں نے ایک ڈبے میں رکھا اور تمام زندگی موقع ملنے پر لوگوں کو دکھاتے رہے۔ اور آخر کون ایسا کرنے پر کون انہیں الزام دے سکتا ہے؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...