دھڑکن کی دو حالتیں ہیں۔ سسٹول، جب دل سکڑ کر خون کو باہر جسم میں دھکیل دیتا ہے اور ڈائسٹول، جب دل پھیل کر بھر جاتا ہے۔ (بلڈ پریشر کی پیمائش کے دو اعداد ان دو حالتوں کے ہیں)۔
جسم کی ہر جگہ کو مناسب مقدار میں خون کی فراہمی ہر وقت رکھنا آسان کام نہیں۔ جب آپ کھڑے ہوتے ہیں تو خون نیچے کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے اور جسم کو کسی نہ کسی طرح گریویٹی سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کام کو کرنے کے لئے رگوں میں والو ہیں جو خون کو واپس آنے سے روکتے ہیں اور ٹانگوں کے عضلات سکڑ کر پمپ کا کام کرتے ہیں۔ ان سے خون کو جسم کے نچلے حصے سے واپس دل کی طرف جانے میں مدد ملتی ہے۔ (اور یہ وجہ ہے کہ باقاعدگی سے کھڑے ہو کر چلنا پھرنا اچھی بات ہے)۔ مجموعی طور پر جسم اس طرح کے چیلنجز سے بخوبی نمٹ لیتا ہے۔
سیوبان لوگنا کے مطابق، “ایک صحتمند شخص کے لئے کندھے اور ایڑی کے درمیان بلڈ پریشر کا فرق بیس فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ اور یہ بڑی کمال کی بات ہے کہ جسم یہ سب manage کر لیتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو یہ پڑھ کر اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بلڈ پریشر ایک جامد عدد نہیں۔ یہ جسم کے ہر حصے میں مختلف ہے اور دن کے مختلف اوقات میں بھی یکساں نہیں۔ دن کے اس حصے میں جب ہم ایکٹو ہوتے ہیں (یا ہونا چاہیے)، یہ کچھ زیادہ ہوتا ہے جبکہ رات کو کم ہو جاتا ہے۔ دن کے بالکل ابتدائی گھنٹوں میں یہ سب سے کم ہوتا ہے۔ یہ عام معلومات ہے کہ دل کا دورہ پڑنے کا امکان سب سے زیادہ اس وقت میں ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا کسی طرح سے تعلق بلڈ پریشر کے گر جانے سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلڈ پریشر پر ہونے والی شروع کی تحقیق بڑے بھیانک تجربات سے ہوئی تھی۔ یہ کرنے والی سٹیفن ہیلز تھے اور انہوں نے اٹھارہویں صدی کی آغاز میں تجربات کئے۔ ایک تجربے میں انہوں نے ایک بوڑھے گھوڑے کو باند کر اس کی بڑی شریان میں کانولا لگا دیا، جس سے آگے نو فٹ لمبی شیشے کی ٹیوب لگائی اور شریان کھول دی۔ نبض کے ساتھ خون کہاں تک پہنچتا ہے؟ یہ پیمائش بلڈ پریشر کا تجربہ تھا۔ انہوں نے اپنے حصولِ علم کی خاطر کئی بے چارے جانوروں کی جان لی۔ ان کے طریقوں پر بڑی تنقید کی گئی اور ان کے کام کو سراہا گیا۔ ہیلز کے پاس یہ دہرا امتیاز ہے کہ انہوں نے سائنس کو آگے بڑھایا اور یہ کام کرنے کے لئے بدنام ہوئے۔ جانوروں سے پیار کرنے والوں نے ان کی سخت مخالفت کی جبکہ رائل سوسائٹی نے سائنس کے لئے خدمات پر انہیں کوپلے میڈل سے نوازا۔ ان کی لکھی کتاب ایک سو سال تک جانوروں اور انسانوں کے بلڈ پریشر پر حرفِ آخر سمجھی جاتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں بھی بہت وقت تک کئی میڈیکل ماہر سمجھتے تھے کہ زیادہ بلڈ پریشر ہونا اچھی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خون پرجوش طریقے سے جسم میں رواں دواں ہے۔ ظاہر ہے کہ اب ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں۔ بلڈ پریشر کا بلند رہنا ہارٹ اٹیک اور سٹروک کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ زیادہ مشکل سوال یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کسے کہا جائے؟ کافی وقت تک یہ معیار 140/90 کا رہا ہے۔ امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن نے اس کو 2017 میں اچانک ہی تبدیل کر کے 130/80 کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار مرد یکایک ہی تین گنا اور خواتین دو گنا ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی صحت جدید میڈیسن کی کامیابیوں میں سے ہے۔ 1950 میں دل کی بیماریوں سے ہلاکت کا تناسب ایک لاکھ میں سے 600 کا تھا جو اب کم ہو کر 168 تک آ گیا ہے لیکن یہ ابھی بھی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...