ہم اپنے منہ اور گلے کی مدد سے ایک بڑا ہی زبردست کام کرتے ہیں۔ یہ بامعنی آواز نکالنے کی صلاحیت ہے۔ پیچیدہ آواز کی تخلیق اور اس کو شئیر کر کے اس میں سے معنی اور خیالات کا تبادلہ انسانی وجود کا کمال ہے۔ اور ان خاصیتوں میں سے ہے جو ہمیں تمام زمینی تاریخ میں رہنے والی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔
ڈینیل لیبرمین کے الفاظ میں “انسانی تاریخ میں جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث رہی ہے وہ گویائی ہے”۔ کسی کو معلوم نہیں کہ زمین پر کس نے سب سے پہلے بولنا شروع کیا اور زبان ایجاد کی۔ اور کیا یہ صرف جدید انسان (homo sapien) کا ہی طرہ امتیاز ہے یا پھر قدیم انسان نما جیسا کہ ہومو ایریکٹس یا نینڈرتھل بھی یہ صلاحیت رکھتے تھے۔ لیبرمین کا خیال ہے کہ نینڈرتھال کے بڑے دماغ اور ان کے ایجاد کردہ اوزار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ بول سکتے تھے لیکن یہ ایسا ہائیپوتھیسس ہے جسے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
جس چیز کا ہمیں معلوم ہے، وہ یہ کہ قوتِ گویائی کے لئے مسلز، لگامنٹ، ہڈیوں اور نرم ہڈیوں کا بڑا ہی نازک اور نفیس تال میل درکار ہے۔ ٹھیک لمبائی، سختی، جگہ کی ضرورت ہے تا کہ ہوا کے دوش پر اپنے پیغام کو ٹھیک طرح سے ماڈیولیٹ کیا جا سکے۔ زبان، دانت اور گلے کی بھی چستی درکار ہے تا کہ گلے سے امڈنے والی ہوا سے پیچیدہ فینوم بنائے جا سکیں۔ اور یہ سب کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے نگلنے یا سانس لینے کی صلاحیت پر اثر نہ پڑے۔ یہ بہت ہی بڑا کام ہے۔ صرف دماغ کا بڑا ہونا کافی نہیں۔ بلکہ اناٹومی کی بڑی زبردست ترتیب کی بھی ضرورت ہے۔ ایک وجہ جس باعث چمپنیزی بات نہیں کر سکتے، وہ یہ کہ وہ اپنی زبان یا ہونٹ میں وہ چابکدست لچک اور کنٹرول نہیں رکھتے کہ لفظ بنا سکیں۔
ہماری تاریخ میں بننے والے جسمانی ڈیزائن کے وقت کونسا مرحلہ تھا جس نے یہ ممکن بنایا؟ یہ تو معلوم نہیں کہ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ صرف بڑا دماغ ہے جو پیچیدہ افکار بتا سکتا ہے بلکہ صوتی آلہ بھی جو اس کا اظہار کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرخرہ (larynx) ایک ڈبہ ہے جو جو دونوں طرف ایک انچ کے سائز کا ہے۔ اس میں اور اس کے آس پاس نو نرم ہڈیاں ہیں، چھ مسلز ہیں، اور لیگامنٹ کا بنڈل ہے۔ ان میں سے دو vocal cords ہیں۔ جب ہوا ان میں سے گزاری جاتی ہے تو یہ پھڑپھڑاتے ہیں (جیسا کہ تیز ہوا میں جھنڈا)۔ اس سے کئی طرح کی آوازیں نکلتی ہیں۔ ان کو زبان، دانت اور ہونٹوں کی مدد سے ہم شکل دیتے ہیں اور اس سے برآمد ہونے والی خوبصورت چیز ہے جو ہماری زبانیں ہیں۔ اس کے تین مراحل ہیں۔ پہلا جس میں صوتی لیگامنٹس سے ہوا باہر نکالی جاتی ہے۔ دوسرا جس میں یہ ہوا آواز میں بدلتی ہے۔ اور تیسرا اس کو تراشے جانا جس میں یہ الفاظ میں ڈھل جاتی ہے۔ اور اگر آپ انسانی آواز کے معجزے کو سراہنا چاہتے ہیں تو اپنی پسند کا گانا گنگنائیں۔ آپ نوٹ کریں گے کہ بغیر کسی محنت کے ہی انسانی آواز کتنی سریلہ ہے۔ ہمارا گلہ بہاوٗ کنٹرول کرنے والے دروازہ اور ہوا کی نالی ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کا آلہ بھی ہے۔
اور جب آپ اس سب کی پیچیدگی کو دیکھیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کئی لوگوں کو یہ سب اکٹھا کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ روزمرہ کی دشواریوں میں سے ایک ہکلاہٹ ہے۔ اور اس کے بارے میں ہماری سمجھ کچھ خاص اچھی نہیں۔ ایک فیصد بالغوں اور چار فیصد بچوں میں یہ پائی جاتی ہے۔ اور نامعلوم وجہ سے اس کا شکار ہونے والوں میں سے 80 فیصد مرد ہیں۔ تاریخ کے کئی بہت مشہور کرداروں میں بھی یہ پایا جاتا تھا جس میں ارسطو، ڈارون، چرچل، لیوس کیرول، شاہ جارج ششم بھی شامل تھے۔
ہمیں نہ ہی یہ معلوم ہے کہ یہ کیوں ہوتا ہے اور یہ بھی کھلا سوال ہے مختلف لوگ مختلف آوازوں اور فقرے میں الفاظ پر ہی کیوں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں میں یہ زیادہ عام ہے۔ اور خاص طور پر اس وقت اگر انہیں دائیں ہاتھ سے لکھنا سکھایا گیا ہو۔ اور کئی لوگوں میں یہ اس وقت حیران کن طور پر ختم ہو جاتی ہے جب وہ الفاظ گاتے ہیں یا پھر کسی اور زبان میں بات کرتے ہیں یا پھر خود کلامی کرتے ہیں۔ ہکلاہٹ کا شکار ہونے والوں کی اکثریت ٹین ایج میں اس سے نجات پا لیتی ہے۔ اور خواتین اس سے جلد چھٹکارا پا لیتی ہیں۔
ہکلاہٹ کا کوئی قابلِ اعتبار علاج نہیں۔ انیسویں صدی میں جرمن سرجن جوہان ڈائفن باک کا خیال تھا کہ اس کا تعلق مسلز سے ہے اور وہ زبان کے مسلز میں سے کچھ کاٹ دیتے تھے۔ یہ موثر نہیں تھا لیکن دنیا بھر میں اس طریقے کو استعمال کیا جاتا رہا۔ ان میں سے کچھ مریضوں کا انتقال بھی ہوا۔ خوش قسمتی سے اس کو ترک کر دیا گیا اور آپ اس کے لئے سپیچ تھراپی استعمال ہوتی ہے جس سے کئی لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...