زبان ایک muscle ہے لیکن کسی بھی دوسرے پٹھے سے مختلف ہے۔ اس کی ایک بات تو یہ ہے کہ یہ بہت حساس ہے۔
کھاتے وقت آپ کتنی مہارت سے جانچ لیتے ہیں کہ درمیان میں کچھ ایسی شے آ گئی جسے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر انڈے کے چھلکے کا چھوٹا سا ٹکڑا یا ریت کا ذرہ۔ اور زبان بڑی اہم چیزوں میں حصہ لیتی ہے۔ مثلاً، بولنا یا چکھنا۔ جب آپ کھاتے ہیں تو زبان کسی دعوت کے نروس میزبان کی طرح ادھر ادھر چکر کاٹ رہی ہوتی ہے۔ ہر لقمے کی ساخت اور ذائقے کی پڑتال کرتی ہے، اس سے پہلے کے اسے آگے دھکیلا جائے۔ اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ زبان ذائقے کے buds سے بھری ہوئی ہے۔ یہ ریسپٹر خلیات ہیں جو زبان کے ابھاروں پر پائے جاتے ہیں اور تین قسم کی شکلوں میں ہیں۔ گول، کھمبی کی طرح اور پتے کی شکل کے۔ یہ ہمارے بدن میں سب سے جلد دوبارہ بن جانے والے خلیات میں سے ہیں اور دس روز میں نئے آتے رہتے ہیں۔
برسوں تک نصابی کتابوں میں بھی زبان کا نقشہ دکھایا جاتا رہا۔ اس میں زبان کے مختلف علاقوں کو خاص ذائقے چکھنے سے منسوب کیا جاتا تھا۔ مٹھاس زبان کی نوک پر، کھٹاس اطراف میں، کڑواہٹ پچھلی طرف۔ اس نقشے کا سرا 1942 میں لکھی گئی کتاب سے ملتا ہے جو ہارورڈ سے تعلق رکھنے والے ایڈون بورنگ نے لکھی تھی۔ اور ان کا ایسا لکھنے کی وجہ ایک جرمن زبان میں لکھا پیپر تھا اس سے چالیس سال پہلے لکھا گیا تھا۔ بورنگ کو اسے سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی۔
ہمارے پاس ذائقے کے تقریباً دس ہزار بڈ ہیں۔ یہ پوری زبان پر پھیلے ہوئے ہیں سوائے اس کے بالکل درمیان میں۔ یہاں پر یہ موجود نہیں۔ اس کے علاوہ اضافی buds منہ کی چھت پر ہیں اور گلے میں بھی۔ اس وجہ سے کچھ ادویات کو جب ہم نگلتے ہیں تو کڑواہٹ کا احساس ہوتا ہے۔
منہ کے علاوہ ذائقے کے ریسپٹر آنتوں اور گلے میں بھی ہیں۔ یہ خراب یا زہریلے کھانے کو پہنچاننے کے لئے ہیں لیکن یہ دماغ کے ساتھ ویسے منسلک نہیں جیسے منہ کے ریسپٹر۔ یہ دماغ تک سگنل تو پہنچاتے ہیں لیکن ذائقے کا احساس پیدا نہیں کرتے۔ اور یہ اچھی بات ہیں۔ ہم شاید وہ نہ چکھنا چاہیں جو ہمارا معدہ چکھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ریسپٹر پھیپھڑوں، دل اور یہاں تک کہ خصیوں میں بھی پائے گئے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ یہاں پر کیا کر رہے ہیں۔ یہ لبلبلے کو بھی سگنل بھیجتے ہیں تا کہ انسولین کی آوٹ پٹ کو ایڈجسٹ کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر یہ خیال ہے کہ ان ریسپٹرز کے ارتقا کی دو عملی وجوہات رہی ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں غذائیت سے بھرپور خوراک کی پہچان ہو سکے (مثلاً میٹھے اور پکے ہوئے پھل) اور خطرناک سے بچا جا سکے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ذائقہ اس بارے میں بہت اچھی راہنمائی نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال 1774 کی ہے۔ مشہور مہم جُو جیمز کک بحرِ الکاہل میں اپنے دوسرے سفر میں تھے۔ ان کے عملے کے ایک شخص نے موٹی تازی مچھلی پکڑی۔ اسے پکایا کر کپتان اور دو افسروں کو دیا گیا۔ انہوں نے چکھ کر اس کو اگلے دن کے لئے سنبھال لیا کیونکہ وہ پہلے ہی کھانا کھا چکے تھے۔ اور یہ ان کی خوش قسمتی تھی۔ اس رات کو تینوں کو شدید کمزوری محسوس ہوئی۔ کئی گھنٹے تک اس قدر مفلوج رہے کہ کک ایک پنسل تک نہ اٹھا سکتے تھے۔ ان تینوں کو جلاب دئے گئے تا کہ معدہ صاف ہو جائے۔ یہ قسمت کے دھنی تھے۔ انہوں نے جو مچھلی کھائی تھی، وہ پفر فِش تھی۔ اس میں ایک زہر ٹیٹروڈوٹیوکسن موجود ہے جو سائینائیڈ سے ہزار گنا طاقتور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
پفر فِش اپنے زہر کے باوجود جاپان میں ضیافتِ خاص ہے۔ یہاں اس کو فوگو کہا جاتا ہے۔ اس کو پکانا چند خاص تربیت یافتہ باورچیوں کا ہی کام ہے۔ یہ پکانے سے پہلے مچھلی کا جگر، آنتیں اور کھال بڑی احتیاط سے الگ کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں زہر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس میں غلطی ہو سکتی ہے اور جاپان میں ہر سال اوسطاً ایک شخص کی ہلاکت فوگو کھانے سے ہوتی ہے۔
فوگو کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک اس کے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اور زیادہ تر زہریلی چیزوں کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ بیلاڈونا، نائٹ شیڈ سے لے کر فنگس کی ورایٹی تک ۔۔ بہت سی خطرناک چیزوں کے خلاف ذائقے کے یہ ریسپٹر خبردار نہیں کرتے۔
ہمارا دفاع اس بارے میں قابلِ اعتبار نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...