آنکھ کا رنگ جس حصے کی وجہ سے ہے، یہ iris ہے۔ یہ پٹھوں کا ایک جوڑا ہے جو آنکھ کی پتلی (pupil) کی درز کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسا کیمرہ کا aperture۔ کتنی روشنی اندر جانی ہے اور کتنی باہر رہ جانی ہے۔ یہ اس سے کنٹرول ہوتا ہے۔ سطحی طور پر دیکھا جائے تو یہ پتلی کے گرد دائرہ سا لگتا ہے لیکن قریب سے دیکھنے پر یہ دھبوں، تکونیوں اور ڈنڈوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور یہ پیٹرن ہم سب میں منفرد ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ آنکھ کے ذریعے شناخت اب عام ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کا سفید حصہ سکلیرا کہلاتا ہے۔ پرائممیٹ کی دنیا میں ہمارا یہ حصہ منفرد ہے۔ اس کی مدد سے ہم ددسروں کی نگاہوں کی سمت کو ٹھیک ٹھیک بھانپ لیتے ہیں اور خاموشی سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔ اپنی آنکھ کو معمولی سی حرکت دے کر آپ اپنے ساتھی کو کسی چیز کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری آنکھ میں روشنی پکڑنے کے لئے دو قسم کے فوٹوریسپٹر موجود ہیں۔ راڈ (rod) ۔۔ جو ہمیں کم روشنی میں دیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ لیکن یہ رنگ نہیں دکھاتے۔ اور کون (cone) ۔۔۔ جن کے کام کرنے کے لئے زیادہ روشنی چاہیے اور دنیا کو تین رنگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ نیلا، سبز اور سرخ۔ جو لوگ کلر بلائنڈ ہیں، ان میں کسی ایک قسم کی کون کی کمی ہوتی ہے اور وہ سارے رنگ نہیں دیکھ پاتے۔ کچھ لوگوں میں یہ تینوں ہی نہیں ہوتے۔ انہیں achromatope کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ ان کے لئے دنیا بے رنگ ہے بلکہ یہ کہ تیز روشنی میں ان کو بڑی مشکل ہوتی ہے اور دن کی روشنی انہیں اس وقت نابینا کر دیتی ہے۔
رات کو بہتر دیکھنے کے لئے ہم نے اپنے کون قربان کر کے راڈ لئے اور اس کا نتیجہ رنگوں کی تمیز میں کمی ہے۔ ہم تین کون رکھتے ہیں جبکہ پرندے، مچھلیاں اور رینگنے والے کیڑے چار رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے عاجزانہ حقیقت ہے لیکن تقریباً تمام غیرممالیہ بصری طور پر ہم سے زیادہ رنگین دنیا دیکھ سکتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف، جو ہمارے پاس موجود ہے، ہم اس کا اچھا استعمال کر لیتے ہیں۔ مختلف تخمینوں کے مطابق انسانی آنکھ 20 لاکھ سے 75 لاکھ رنگوں میں تمیز کر لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا بصری فیلڈ حیران کن طور پر محدود ہے۔ اپنے بازو کو سامنے پھیلا کر اپنا انگوٹھا دیکھیں۔ بس، اتنا ہی ایریا ہے جس کو کسی ایک وقت میں ہم ٹھیک فوکس میں دیکھ پاتے ہیں۔ ہماری آنکھیں مسلسل اچھلتی رہتی ہیں اور ہر سیکنڈ میں چار snapshot لے رہی ہیں۔ اس لئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زیادہ وسیع علاقہ دیکھ سکتے ہیں۔ آنکھوں کے اچھلنے کو saccade کہتے ہیں اور آپ کی آگاہی کے بغیر دن میں ڈھائی لاکھ بار یہ ایسی حرکت کرتی ہیں۔ نہ ہم خود اسے محسوس کر پاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں میں۔
اس کے علاوہ، آنکے سے تمام اعصابی ریشے پیچھے کی طرف ایک ہی راستے سے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری بصارت کے فیلڈ میں سامنے مرکز سے پندرہ ڈگری پر ایک خلا ہے۔ یہاں پر اعصابی ریشے کی موٹائی بہت زیادہ ہے۔ تقریباً، ایک پنسل جتنی۔ اور اس وجہ سے یہ بلائنڈ سپاٹ بڑے سائز کا ہے۔ اس کو معلوم کرنے کا ایک آسان حربہ ہے۔
پہلے، اپنی بائیں آنکھ بند کریں اور دوسری آنکھ سے بالکل سامنے گھوریں۔ اب سیدھے ہاتھ کی ایک انگلی چہرے سے دور لے جائیں۔ انگلی کو آہستہ آہستہ نگاہوں کے سامنے حرکت دیں جبکہ نگاہ سے بالکل سیدھا گھورتے رہیں۔ ایک ایسا نقطہ آئے گا جب اچانک ہی آپ کی انگلی غائب ہو جائے گی۔ مبارک ہو، آپ نے اپنا بلائنڈ سپاٹ تلاش کر لیا ہے۔
آپ کو اپنے بلانڈ سپاٹ کا علم نہیں ہوتا کیونکہ دماغ اس کو خود سے بھرتا رہتا ہے۔ یہ عمل کو perceptual interpolation کہتے ہیں۔ اور یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ اپنے ویژن کے اس علاقے میں آپ کو جو بھی نظر آ رہا ہوتا ہے، یہ صرف چشمِ تصور کی کارستانی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...