اگر جلد کا بالائی ایک ملی میٹر حصہ اتارا جائے تو یہ اس قدر باریک ہو گا کہ کسی حد تک شفاف ہو گا۔ اور بس یہی ۔۔۔ سیاہ، سفید، بھورا ۔۔۔ یہ ہماری جلد کی رنگت ہے۔ انسانوں کی رنگت کا فرق صرف ایپی ڈرمس کی بالائی اور بہت ہی پتلی سی تہہ ہے۔
اور یہ غیرمعمولی بات ہے کہ ہمارے بدن میں اس حصے کی اس خاصیت کو اتنی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ لوگ یہ خیال کرتے رہے ہیں کہ اس کا کردار سے کوئی تعلق ہے جبکہ یہ صرف دھوپ سے ہونے والا ردِ عمل ہے۔ تاریخ میں اس کی وجہ سے لوگوں کی آزادی سلب کی گئی، انہیں مارا گیا اور ان کے حقوق چھینے گئے۔ اس کی بنیاد اس تہہ میں ہونے والا معمولی فرق رہا ہے۔
نینا جابلونسکی کی تیس سال کی تحقیق جلد کی رنگت پر ہے اور انہوں نے اس پر دو کتابیں لکھی ہیں۔ Skin جو 2006 میں لکھی تھی اور Living Color جو کہ 2012 میں لکھی گئی۔
رنگت سائنسی اعتبار سے کسی کے تصور سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ جابلونسکی کا کہنا ہے کہ ممالیہ کی رنگ میں 120 سے زیادہ جین اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنی رنگ کئی اقسام کی پگمنٹ سے لیتی ہے جن میں سب سے اہم مالیکیول میلانن ہے۔ یہ بائیولوجی کا قدیم مالیکیول ہے اور یہ صرف جلد کی رنگت کے بارے میں ہی نہیں۔ یہ پرندوں کو ان کے پروں کے رنگ دیتا ہے۔ مچھلیوں کو ان کا texture دیتا ہے اور چمک فراہم کرتا ہے۔ سکوئیڈ کی خارج کردہ سیاہی کو رنگ دیتا ہے۔ اور جب آپ کے کاٹے ہوئے پھل براون ہو جاتے ہیں تو اس میں بھی اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے بالوں کو رنگت دیتا ہے۔ اور عمر کے ساتھ اس کی پیداوار ڈرامائی طور پر گر جاتی ہے اور اس کے ساتھ بالوں میں چاندی اترنے لگتی ہے۔
جابلونسکی کہتی ہیں کہ میلانن ایک زبردست قدرتی sunscreen ہے۔ ہم سب، خواہ کسی بھی نسل کے ہوں، ایک ہی جتنے میلانوسائٹ رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میلانن کس مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلد کی رنگت کنورجنٹ ایولیوشن کی مثال ہے۔ یعنی دو یا زیادہ جگہ پر ایک ہی شے کا ارتقا ہونا۔ پولی نیشیا کے لوگوں کی ہلکی رنگت اور یورپ کے لوگوں کی ہلکی رنگت کا آپس میں جینیاتی تعلق نہیں۔ ایک وقت میں خیال تھا کہ سیاہ رنگت کو ہلکا ہونے میں دس سے بیس ہزار لگے ہوں لیکن اب ہم جینومکس کی مدد سے یہ جانتے ہیں کہ یہ اس سے بہت جلد ہو سکتا ہے۔ محض دو سے تین ہزار سال میں۔ جابلونسکی کا کہنا ہے کہ ڈی پگمنٹیشن زمین پر کم سے کم تین مرتبہ ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خیال ہے کہ جلد کی ہلکی رنگت ہجرتوں اور زراعت کا نتیجہ ہے۔ قدیم طرزِ زندگی والے لوگ بہت سا وٹامن ڈی مچھلی اور شکار سے حاصل کر لیتے تھے اور جب فصلیں اگانا شروع ہوئیں تو کوراک تبدیل ہو گئی۔ خاص طور پر خطِ استوا سے شمال کے سفر میں۔ جلد کی ہلکی رنگ مفید تھی کیونکہ اس سے اضافی وٹامن ڈی اخذ کیا جا سکتا تھا۔
وٹامن ڈی صحت کے لئے ضروری ہے۔ یہ مضبوط ہڈیوں اور دانتوں میں مدد کرتا ہے۔ امیون سسٹم کے لئے مفید ہے۔ کینسر سے لڑائی اور دل کی دیکھ بھال میں کردار ہے۔ ہم اسے دو طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خوراک سے یا دھوپ سے۔ دھوپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا الٹراوائلٹ حصہ خلیے کے ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور جلد کا کینسر کر سکتا ہے۔ ٹھیک توازن آسان نہیں۔
انسانی بدن نے اس چیلنج کو انواع و اقسام کی رنگت کی مدد سے حل کیا۔ زمین کے مختلف حصوں میں دھوپ کی شدت یکساں نہیں۔ جب بدن خود کو تبدیل شدہ حالات میں ایڈاپٹ کرتا ہے تو اسے فینوٹائپ پلاسٹسٹی کہا جاتا ہے۔
ہم اپنی جلد کا رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ دھوپ میں کالے ہو جاتے ہیں۔ شرم سے لال ہو جاتے ہیں۔ غصے میں چہرے کی سرخی کی وجہ ہمیں معلوم نہیں۔ جب جسم لڑنے کو تیار ہو تو عام طور پر یہ خون کو ان جگہوں کی طرف زیادہ بھیجنے لگتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہے۔ یعنی پٹھوں میں۔ تو پھر یہ خون چہرے کی طرف کیوں؟ معلوم نہیں۔ جابلونسکی کا خیال ہے کہ اس کی ایک ممکنہ وجہ حریف کو یہ سگنل دینا ہو سکتی ہے کہ آپ واقعی غصے میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہمارے سفر سست رفتار تھے اور ہم عموماً ایک ہی جگہ پر رہتے تھے تو ارتقا کی رفتار کام کر جاتی تھی۔ لیکن اب کے تیز تر سفر کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں جلد کا رنگ اور ماحول ہم آہنگ نہیں۔
شمالی خطوں، جیسا کہ کینیڈا یا شمالی یورپ، میں یہ ممکن نہیں کہ سردیوں کے مہینوں کے کمزور سی دھوپ سے مناسب مقدار میں وٹامن ڈی حاصل کیا جا سکے، خواہ رنگت کتنی ہی گوری کیوں نہ ہو۔ انڈے، پنیر اور مچھلی کا تیل اس مقدار میں نہیں کھایا جا سکتا کہ یہ کمی پوری ہو۔ کئی جگہوں پر دودھ میں اضافی وٹامن ڈی ملایا جاتا ہے لیکن اس وقت عالمی طور پر نصف آبادی کم از کم سال کا کچھ حصہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلکی رنگت کے ساتھ ہلکے رنگ کے بال اور آنکھیں بھی نمودار ہوئیں اور اسے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔
بحیرہ بالٹک کے پاس صرف چھ ہزار سال قبل ان کی آمد ہوئی۔ اور یہ معلوم نہیں کہ کیوں۔ بال اور آنکھ کا رنگ وٹامن ڈی میٹابولزم پر اثر نہیں ڈالتے۔ اور ان کا کوئی عملی فائدہ نہیں لگتا۔ شاید اس خاصیت کو دلکش سمجھا گیا ہو اور یہ آبادی میں رہ گئی ہو۔ اگر آپ کی آنکھ نیلی یا سبز ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ آنکھ میں یہ رنگ زیادہ ہیں بلکہ یہ کہ دوسرے رنگ کم ہیں جس وجہ سے آنکھ نیلی یا سبز لگتی ہے۔
جلد کی رنگت کم از کم ساٹھ ہزار سال سے حالتِ تغیر میں ہے لیکن یہ سیدھا سفر نہیں۔ کئی نسلوں میں ان میں تبدیلی آتی رہی، کئی میں جگہ کی تبدیلی کے بعد بھی نہیں۔ کئی بار یہ ہلکے رنگ کی طرف سفر رہا، کئی بار اس کے برعکس
مثال کے طور پر، جنوبی امریکہ کی مقامی آبادی کی رنگت اس سے ہلکی ہے جو اس latitude پر متوقع ہو سکتی ہے۔ یا افریقہ کی خوئی سان نسل صحرا میں رہتی رہی ہے اور کبھی زیادہ دور نہیں گئی لیکن ان کی رنگت ہلکی ہے۔
برطانیہ میں ایک اور ملنے والے باقیات چیڈرمین کے تھے۔ اس کے 2018 میں ہونے والے جینیاتی تجزیے سے لگتا یہ ہے کہ یہ سیاہ فام تھا اور نیلی آنکھیں تھیں۔
جابلونسکی کا کہنا ہے کہ جہاں تک رنگت کا تعلق ہے تو اسے سمجھنے میں ہم ابھی ابتدا میں ہیں۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...