ایمان روشنی کہ پاس گئی اسے سب بتایا اور رونے لگی آپی میں کیا کروں۔۔۔روشنی پریشان ہو گئی کل اس کی مھندی تھی اور وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہی تھی۔۔۔اچھا ایمان رو مت دیکھو تم کہیں اکیلی مت جانا سب کہ سامنے وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا ٹھیک ھے روشنی نے ایمان کو تسلی دی۔۔۔جی آپی۔۔۔۔۔ایمان تمہیں آنٹی بولا رہی ھیں۔۔میں آتی ھوں ایمان مما کہ پاس گئی تو مما نے اسے ڈانٹا ایمان کہاں تھیں تم میں کب سے ڈھونڈ رہی یوں تمیہں تمھاری بھن کی شادی ھے سب کام تمہیں میرے ساتھ مل کہ کرنا ھے اور تم پتا نہیں کہاں چھپ جاتی ہو۔۔آمینہ بیگم اپنی دھن میں کہے جا ردی تھی جب انہون نے ایمان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھون میں آنسو تھے۔۔آمینہ بیگم کہ دل کو ایک دم سے کچھ ھوا انہوں نے ایمان کو گلے لگایا اور پوچھا کیا ہوا ھے ایمان تم ڈری کیوں ہو کیسی نے کچھ کہا ھے۔۔ماں کہ گلے لگاتے ایمان رونے لگی اور کہنے لگی مما مجھے چھپا لیں کہیں میں ایسے مر جاؤنگی مجھے بہت ڈر لگتا ھے۔۔۔ایمان کیا ہوا ھے میری جان کس بات سے تمھیں ڈر لگتا ھے آخر بتاؤ مجھے ھوا کیا تھا اس رات۔۔۔اور جب مما نے اس رات کا ذکر کیا ایمان ایک دم سیدھی ہوئی نہیں مما کچھ نہیں یہ کہہ کہ ایمان بھاگ گئی اور آمینہ بیگم پھر سوچ میں پڑ گیں انہیں ایمان کی بہت فکر رہتی تھی اور اس دن کے بعد تو وہ اور بھی پریشان ہو گئی تھی ایمان کہ لیے لیکن ایمان انہیں کچھ بتا نہیں رھی تھی وہ جانتی تھی بات کچھ بڑی ہے ورنہ ایمان کی ایسی حالت نہ ھوتی۔۔۔۔
آمینہ بیگم نے ایمان کو روشنی کہ ساتھ اس کہ کمرے میں بیٹھا دیا وہ جانتی تھیں ایمان ڈر رہی ہے کیسی چیز سے اور یہی حل تھا وہ روشنی کہ ساتھ رھتی ایمان کو بخار ہو گیا تھا وہ ماں تھیں اتنا جان گیں تھیں وہ اس شادی میں کیسی سے ڈر رہی تھی پر کس سے اور کیوں اس لیے انہوں نے ایمان کو سب سے دور روشنی کہ پاس بیٹھا دیا۔۔۔
آج روشنی کی مھندی تھی اور آمینہ بیگم اور آروما کام میں لگیں تھیں امان ایمان کو ڈھونڈتا رھا پر وہ نہیں ملی۔۔۔یہ ایمان تو کل سے غایب ہو گئی ہے۔۔۔امان سوچنے لگا۔۔۔چاچی ایمان کہاں ھے امان نے آمینہ بیگم سے پوچھا۔۔پتا نہیں بیٹا ہوگی یہں کہیں کیوں کوئی کام تھا۔۔۔امینہ بیگم اب کسی کو ایمان کا نہیں بتا رہیں تھیں کیونکہ وہ نہیں چاھتی تھیں کسی کی بھی وجھ سے ان کی بیٹی کو تکلیف ہو۔۔۔آمینہ بیگم کہ جواب پہ امان کو حیرت ھوا پھر کہا نہیں چچی بس ویسے دیکھا نہیں تو پوچھ لیا۔۔۔۔تو اب ماں تمہیں سپورٹ کر رہی ہے تمھاری پر ڈونٹ وری اس کا حل بھی ھے میرے پاس امان نے سوچا۔۔۔اور وہ سیدھا اپنے بابا کہ پاس گیا۔۔۔بابا آپ سے کچھ بات کرنی ھے۔۔۔امان نے سریس ہوتے کہا۔۔۔ھاں بیٹا بولو۔۔۔۔آپ آئیں امان انہیں الگ روم میں لے گیا۔۔بابا اج تک میں نے آپ سے جو مانگا آپ نے مجھے دیا۔۔۔ھاں بیٹا پر اس بات کا ابھی کیا ذکر۔۔بابا مجھے ایمان چاھئے امان نے فورن بول دیا بابا پہلے اسے دیکھتی رہی پھر کہا بس اتنی بات امان نے کہا جی بابا ۔۔۔۔ٹھیک ھے میں رشید سے کرتا ہوں بات۔۔۔آج ھی کریں بابا اور شادی کا بھی کہیں روشنی کہ ساتھ کردیں۔۔ امان نے سارے فیصلے کر ڈاکے بیٹا یہ بہت جلدی ہوگا میں بات کرونگا رسم کرلیں ابھی شادی کچھ ٹائم میں۔۔۔ٹھیک ھے بابا امان کہہ کہ باھر چلا گیا۔۔۔
امان کہ بابا نے جب رشید صاحب نے بات کی تو وہ بہت خوش ھوئے سارے خاندان میں ایسا رشتہ کہیں نہیں تھا انہوں نے فورن ھاں کردی اور کہا روشنی کی شادی کہ بعد ایمان کی شادی کرینگی ابھی ایمان اتنی سمجھدار نہیں انہوں نے کہا ٹھیک ھے۔۔۔
رشید صاحب نے ایمان کے رشتے کی بات جا کہ آمینہ بیگم سے کی تو انہیں پہلے حیرت ہوئی پھر انہوں نے کہا۔۔۔میں ایمان کی شادی اتنی جلدی نہیں کرونگی اور ان دنوں اس کی طبیعت ویسے بہت خراب ھے میں اس پہ کوئی اسٹریس نہیں ڈالنا چاھتی۔۔۔اس بات پہ رشید صاحب بگڑ گئے میری زبان کہ کوئی اھمیت نہیں ھے میں نے ھان کردی ھے اور میرا فیصلا اٹل ھے جا کہ کہہ دو ایمان کو تیاری کری روشنی کی شادی کہ بعد اس کی انگیجمیٹ ھوگی امان کہ ساتھ اور اب میں کوئی بحس نہ سُنوں۔۔۔ آمینہ بیگم چپ کر کہ وھان سے چلی گین لیکن وھ ابھی ایمان کو کچھ نہیں بتانا چاھتی تھیں۔۔۔
مہندی کا فنکشن شروع تھا ایمان کو بخار تھا پر مما کہ کہنے پہ وہ تھوڑا تیار ھو گئی تھی اور بہت خوبصورت لگ رگی تھی۔۔۔فنکشن اوپر چھت پہ تھا اور ایمان اب تک نیچی تھی روشنی کہ ساتھ پھر آمینہ بیگم آئیں ایمان سے کہا آؤ بیٹا اوپر چلیں برا لگتا ھے بہن کا فنکشن ہے سب باتیں کریں گے میں کچھ دیر مین تمہیں یہاں چھوڑ جاؤنگی۔۔۔تھیک ھے مما ایمان ان کہ ساتھ چل دی۔۔
ایمان بہت پیاری لگ رھی تھی وہ جیسے اوپر گئی سب اسے دیکھنے لگے امان بھی اسے دیکھے جا رھا تھا ایمان کی نظر جب امان پہ پڑی تو اس کی ھاتھ کی گرفت مما کہ ھاتھ پہ تیز ہو گئی۔۔اور مما نے دیکھا کہ وہ امان کو دیکھ کہ ڈر رھی تھی۔۔۔وہ ایمان کہ آگے آگیں تا کہ امان اسے نہ دیکھ پائے۔۔۔۔اور پھر پورےفنکشن میں آمینہ بیگم ایمان کہ ساتھ رہیں امان کا غسہ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔
ایمان کب تک چھپوگی مجھسے آخر سمجھتی کیوں نہیں بہت پیار کرتا ھوں تم سے نہیں رھا جاتا تمھارے بغیر اور اب تمھاری مما مجھے بہت پریشان کر رھی ھیں ایک منٹ تمیہں اکیلا نہیں چھوڑا۔۔امان کو سوچ سوچ کہ غسہ آرھا تھا۔۔۔
آج شادی تھی روشنی کی اور وہ پارلر گئی ہوئی تھی ایمان کو آمینہ بیگم نے اپنے ساتھ رکھا ھوا تھا کہیں اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھں اور ایمان بھی اس بات سے ریلکس تھی وھاں امان کا غسے سے برا حال تھا اسے ایک موقع نہیں ملا تھا ایمان سے بات کرنے کا۔۔۔پوری شادی مین امان کی نظرین ایمان پر تھیں اور جب ایمان دیکھتی تو مما کہ پیچھی چھپ جاتی اور مما یہ سب نوٹ کر رھین تھی جس بات کا علم نا ایمان کو تھا نا امان کو۔۔۔۔
رخستی کے وقت آمینہ بیگم رو رھی تھی ایمان بھی رو رہی تھی اس وقت ان کا دِھیان ایمان کی طرف نہیں روشنی کی طرف تھا جو بری طرح روئے جا رھی تھی۔۔۔اسی وقت کی تلاش امان کو بہی تھی ایمان اپنے دھن میں رو رھی تھی جب کیسی نے اس کا ھاتھ پکڑ کہ منہ پے ھاتھ رکھ کہ سائیڈ میں لے گیا ایمان آنکھٰیں پہاڑی دیکھ رھی تھی اندھیرے کی وجھ سے کچھ سمجھ نہیں آیا پر جیسے امان کا چھرا قریب آیا وہ چیخنے لگی تھی کہ امان کا ھاتھ اس کہ منہ پہ تھا۔۔۔چپ کر کہ ٹھری رہو ایمان ورنہ مجھ سے برا کوئی نہین ھوگا۔۔۔ایمان ایک دم سہم گئی اور ھچکیاں لینے لگی امان نے ایمان کا چھرا ھاتھ میں لیا تو اس نے جھٹک دیا پر امان نے دوبارہ پکڑ لیا۔۔بہت خوبصورت لگ رھی ہو دل تو کرتا ھے تمھیں ابھی لے جاؤ۔۔ایمان رو رہی تھی امان نے ایمان کے آنسو صاف کئے یار کتنا روتی ھو تم دیکھو ذرا اپنی حالت بخار ھے تمھین پھر بھی روئی جا رھی ھو۔۔جانے دو پلیز مجھے ایمان بس یہی کہہ پائی۔۔۔کیون پاگل دیکھائی دیتا ھون اتنی مشکل سے ھاتھ آئی یو اور جانے دونگا ایک توآج کل آمینہ چچی کو پتا نہین کیا ہوا ھے تمھاری گارڈ بنی ھوئی ھیں۔۔۔امان مجھے چھوڑ دو۔۔ایمان نے پھر ایک بار لاچاری کہا ایک شرت پہ۔۔امان نے ایمان کہ ھاتھ دیوار سے لگائے۔۔۔ک۔۔کیا شرط ایمان پریشان ہوئی۔۔۔تمہیں تمہارے یہ پیارے ھونٹ میرے گال پہ رکھنے ھون گے۔۔۔ایمان کی آنکھیں پھٹ گیں کبھی نہیں کرونگی میں ایسا ایمان نے چھرا دوسری سائیڈ کیا جو امان نے اسے وقت اپنی طرف کرتے ھوے کہا ٹھیک ھے پھر میں کرونگا اور میری تو گارنٹی بھی نہیں ھے کے گال سے کہاں چلا جاؤں امان نے شرارت سے کھا اور ایمان کہ اور قریب آگیا۔۔۔چھوڑو امان مجھے جانے دو ایمان تڑپنے لگی۔۔امان اس کہ قریب آیا اور اپنے ھونٹا ایمان کہ گال پہ رکھ دیے ایمان کی سانس رک گئی اس نے ٹرپ کے امان کو دیکھا دیا اور رونے لگی امان ھسنے لگا۔۔ اچھا رو مت اب جانے دیتا ھوں پر ایک بار گلے مل لوں اور پھر امان نے ایمان کو گلے لگایا اور کہا آء لو یو سو مچ تم جانتی نہیں ایمان تم میری زندگی ہو۔۔۔۔امان پوری شدت کہ ساتھ کہہ رھاتھا جبکہ ایمان بس وھان سے جانا چاھتی تھی۔۔۔۔اور امان نے اسے جانے دیا۔۔۔
آمینہ بیگم نے جب ایمان کو غایب دیکھا تو پریشان ہو کہ اسے ڈھونڈنے لگی جب ایمان انہیں روتی ہوئی آتی دیکھائی دی۔۔۔آمینہ بیگم ایک دم اس کی طرف لپکیں۔۔۔۔ایمان کیا ہوا ھے تمھیں کسی نے کچھ کہا ھے اور ایمان ان کہ گلے لگ گئی ایمان امان نے تمیہں کچھ کہا ھے۔۔۔۔امان کہ نام پے ایمان ایک دم سیدھی ھو گئی اور مما کو دیکھنے لگی وہ ماں تھیں سمجھ گیں کہ مسلا امان کا ھی ھے وہ چپ ھوگیں اور ایمان کو چپ کروا کہ اندر لے گیں روشنی کی رخستی کروا کہ ذرینہ چچی کہ گھر لے گئے تھے کیونکہ رات کہ وقت بارات نہیں روانا ہو سکتی تھی اور ارسلان صاحب نے سب کو روکا تھا کہ امان کی انگیجمینٹ کہ بعد سب جائیں گے۔۔۔
آمینہ بیگم نے پھر سے رشید صاحب سے بات کی ایمان کے رشتے کے بارے میں لیکن وہ نہیں مانے انہون نے کل کی ڈیٹ رکھ دی انگیجمینٹ کی ایمان اس بات سے بے خبر تھی اور آمینہ بیگم پریشان تھیں کہ یے بات اسے کیسے بتائیں گی۔۔۔جب رشید صاحب کی آواز ان کہ کانوں میں گونجی۔۔۔۔سنیں آپنے ایمان کو بتا دیا ھے۔۔۔۔آمینہ بیگم نے نفی میں سر ھلایا۔۔کیا کرتی ھیں آپ بیگم کل اس کی منگنی ھے اور اسے ھی نہیں پتا۔۔۔۔بلائیں اسے نہیں میں بتا دونگی خود۔۔آمینہ بیگم نے فورن کہا آپ نے بتانا ہوتا اب تک آپ بتا دیتیں۔۔اب بلائیں اسے یا میں خود جاؤ اس کہ روم میں۔۔۔میں بلاتی ھون یہ کہہ کہ آمینہ بیگم ایمان کے روم میں اسے بلانے گیں اور اسے اپنے ساتھ لے کہ آئیں اور وہ نہ سمجھی کی کیفیت میں اپنے مما بابا کو دیکھ رھی تھی۔۔
_________
رشید صاحب نے ایمان کو ساتھ بیٹھنے کا کہا وہ اپنی مما کو دیکھ رھی تھی جو اس وقت خود بہت پریشان تھیں۔۔۔ایمان میں نے تمھارا رشتہ تے کردیا ھے۔۔یہ سن کہ ایمان کے ہوش اڑ گئے آنکھون میں آنسو آگئے پر اپنے بابا کہ سامنے کچھ کہہ نہیں پائی بس بے بسی سے اپنی مما. کو دیکھ رہی تھی جو خود بے بس تھیں۔۔۔لڑکا بہت اچھا ھے تمھیں بہت خوش رکھے گا۔۔۔رشید صاحب کی آواز پر ایمان کا سختہ ٹوٹا بابامیں۔۔۔ابھی اس نے یہی کہا تھا کہ رشید صاحب پہلے بول اُٹھے۔۔خبردار ایمان کوئی فضول بات کی ھے شادی نہ کرنے کی میں بردشت نہیں کرونگا اتنا اچھا رشتہ گوانا۔۔۔پتا نہیں کیسے ارسلان بھائی نے امان کہ لیے تمھارا رشتہ مانگا میری تو اس وقت خوشی سے حالت ہو گئی جس کہ لیے پورا خاندان آس لگائے بیٹھا تھا وہ خود ھمارے پاس آئے رشید صاحب بولے جا رے تھیں اور ایمان نے امان کا نام سن کہ سدمے کی حالت میں ماں کو دیکھ رھی تھی۔۔۔مما. بابا کیا کہہ رہے ھیں ایمان نے بے بسی سی مما سے پوچھا۔۔۔۔مما میں کبھی امان سے شادی نہیں کرونگی پلیز بابا سے کہیں نہ آپ ماں کو چپ دیکھ کہ ایمان بابا کی طرف لپکی۔۔۔۔بابا میں آپ کہ آگے ھاتھ جوڑتی ہوں پلیز مجھے اما.ن سے شادی نہیں کرنی پلیز بابا ایمان بابا کہ آگے ھاتھ جوڑے کھڑی رو رھی تھی۔۔۔۔ایمان جاؤ یہاں سے میں اپنی زبان سے نہیں مکرتا۔۔۔جا کہ تیاری کرو ۔۔مما پلیز بابا سے کہیں مجھے اپنے ھاتھوں سے مار دیں پر امان سے شادی نہ کریں ایمان بہت رو رھی تھی رشید صاحب کہ دل کو کچھ ہوا پر وہ جانتے تھی ارسلان بھائی کو ھاں کر کہ منع کرنا بھت مہنگا پڑ جائیگا۔۔۔اس لیے انہوں نے ایمان کو کہا جاؤ اپنے کمرے میں اور کل تیار رھنا انگیجمینٹ کہ لیے اب کوئی بحس نہ سنوں میں۔۔بابا ایمان تڑپ کہ رہ گئی اور وھیں بی ہوش ھو کہ گر گئی۔۔۔ایمان رشید صاحب اور آمینہ بیگم دونون اس کی طرف بھاگے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہھ ایمان کو رشید صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔انہیں کس بات کا اتنا اسٹریس ھے۔۔۔ڈاکٹر کہ سوال پہ رشید صاحب چپ ہو گئی۔۔۔۔جس پہ ڈاکٹر نے انہیں کہا دیکھیں انہیں ہر اسٹریس سے دور رکھیں۔۔۔یہ کہہ کہ ڈاکٹر چلے گئے اور رشید صاحب سوچ میں پڑ گئے کہ ارسلان بھائی کو کیسے منع کرینگے۔۔۔ایمان دوائوں کہ ذیرے اثر سو رھی تھی آمینہ بیگم اس کہ پاس بیٹھیں تھیں
رشید صاحب ارسلان صاحب کہ پاس گئی وہ اس وقت ہوٹل میں تھے امان بھی ان کہ ساتھ تھا اور باقی ساری بارات ذرینہ بیگم کہ گھر تھی کل تک بارات کو وہیں رکنا تھا کیونکہ امان اور ایمان کی منگنی کی بات چل رہی تھی۔۔۔۔بھائی صاھب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔رشید صاحب کی نظریں نیچے کرتے کہا۔۔۔اس پہلے وہ کچھ کہتے ارسلان صاحب نے کہا رشید ایسا کچھ مت کہنا کہ مجھے اپنا لہجہ سخت کرنا پڑے ایمان میرے بیٹے کی خوشی ہے اور میں اپنے بیٹے کی کبھی کوئی خاہش ادھوری نہیں رہنے دیتا میں تم سے اس بات کا وعدہ کرتاہوں ایمان کو بیٹی بنا کہ رکھون گا اب تم کہو کیا کہنے آے ہو۔۔۔رشید صاحب بہت پریشان ہو گئے۔۔۔بھائی صاحب اصل میں ایمان کی طبیعت بہت خراب ھے وہ بے ھوش ھے۔۔اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتی ھم منگنی کی بات روک سکتے ہین سب آپس میں ھے۔۔۔امان بھی ساری بات سن رہا تھا اور وہ جو اتنا خوش تھا ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔۔وہ غسے سے اٹھ کہ چلا گیا۔۔۔ارسلان صاحب امان کہ لیے پریشان ہوئے پر اگر ایمان بے ھوش تھی تو منگنی ھو نہیں سکتی تھی اس لیے چپ ھو گئے۔۔۔کیونکہ امان کی فرمائش تھی کہ وہ ایمان کو سب کہ سامنے رنگ پہنائے اب وہ خالی رسم نہیں کر سکتے تھے اس لیے اتنا کہا ایمان ٹھیک ہو تو بتائیں ہم آجائین گے پھر رسم کرینگے۔۔۔اور رشید صاھب جی کہہ کہ چلے گئے۔۔۔
بارات کو جانے کا کہہ دیا ارسلان صاحب نے یہ کہہ کہ ایمان کی طبیعت کی وجھ سے کچھ وقت کہ لیے ملتوی کر دی گئی ھے منگنی کی تقریب۔۔۔اور بارات بھی روانا ہوگئی۔۔۔امان کا غسے سے برا حال تھا اسے پتا تھا ایمان کی طبیعت کیوں خرا ب ھے۔۔۔ارسلان صاحب امان کے پاس آئے اور کہا بیٹا ھم بھی چلیں میں ڈیرائور کو کال کردوں۔۔۔نہیں بابا امان فورن بولا آپ جائیں میں ابھی نہیں جاؤنگا۔۔۔بیٹا ایمان ٹھیک ہو جائے ھم آئیں گے پھر کیوں پریشان ہو رہے ھو میرا وعدہ ھے ایمان کی شادی تم سے ھی ھوگی۔۔۔۔بابا ایمان کی شادی مجھ سے ھی ھوگی لیکن یہ لوگ شرافت سے نہیں مانیں گے۔۔۔غلط بات ھے بیٹا رشید نے مجھے ہان کہہ دی ھے اور ہمھارے پاس ہان کہ بعد نہ نہیں ھوتی۔۔۔۔اس لیے تم فکر مت کرو۔۔۔بابا آپ نہیں جانتے بچوں کہ لیے انسان نہ بھی کرتا ھے جیسے آپ میرے لیے سب کر سکتے ھیں اس کہ ماما بابا بھی کریں گے۔۔۔ارسلان صاحب سمجھ گئے تھے لیکن وہ چپ اس لیے تھے کہ ایمان ٹھیک ہو جائے پھر بات کریں گے۔۔۔بابا آپ اور مما. جائیں میں کچھ دن تک آونگا پر کسی کو پتا نہ ھو کہ میں یہاں ہوں آپ سب سے یہی کہنا میں آپ کہ ساتھ جا رھا ہوں ۔۔۔کیوں بیٹا کیا کرنے کا اِرادہ رکھتے ھو آپ۔۔۔کچھ نہیں بابا آپ بس وہی کریں جو کہا ھے اور ارسلان صاحب کی بیٹے کہ آگے بلکل نہیں چلتی تھی اس لیے ٹھیک ھے کہہ کہ چلے گئے امان کی مما. کہ ساتھ۔۔۔
امان کو یہاں ایک ھفتہ ھو گیا تھا وہ اسی انتظار میں تھا ایمان باھر نکلے۔۔۔۔ایمان اب ٹھیک تھی اور خوش بھی کہ اس کہ بابا نے اس کی بات مان لی تھی اور وہ واپس دبئی چلے گئی تھی اور یہاں سب کو یہی پتا تھا امان چلا گیا ھے واپس۔۔۔ایمان خوش تھی اور اسے دیکھ کہ اس کی مما بھی خوش تھیں۔۔۔
ایمان آپی آپکی کال آرھی ھے۔۔۔آروما نے ایمان کا موبائل لا کہ ایمان کو دیا۔۔۔سونیہ کی کال تھی۔۔۔سونیہ ایمان سے لڑنے لگی کہ وہ اسے ملتی نہیں آج رات سونیہ کی انگیجمینٹ تھی اور وہ ایمان کو بلا رھی تھی ایمان کی اسے اچھی دوستی تھی اس لیے وہ منع نہیں کر پائی۔۔۔