(Last Updated On: )
اور کتنا ہمیں یہ روندے گا
وقت آخر کبھی تو بدلے گا
دیکھ لی دل نے گھوم کے دنیا
اب خودی کے سفر پہ نکلے گا
دور کرنے وجود کی ظلمت
“وہ شعاعیں پہن کے اترے گا”
لے کے جاتی نہیں مجھے بازار
ماں سمجھتی ہے! دل یہ مچلے گا
اب جلاؤں گی دل دیا ایسے
ظلمتوں کو مری جو نوچے گا
مت دباؤ مرا ہنر لوگو!
ورنہ! لاوے کی طرح ابلے گا
گْل تمہیں یہ یقین رکھنا ہے
سالِ نو خیریت سے گزرے گا