(Last Updated On: )
اس کی آواز کا یوں لطف لیا جاتا ہے
جیسے وادی میں کوئی گیت سنا جاتا ہے
سرحدی گاؤں کے جیسی ہے محبت اسکی
اتنے خطرات میں رہ کے بھی جیا جاتا ہے
خواب سے کوئی نکلتا ہے حقیقت کی طرف
اور انسان کو دیوانہ بنا جاتا ہے
وقت رخصت یہ کہا اس نے “سدا خوش رہنا”
جیسے آندھی میں کوئی دیپ جلا جاتا ہے
آنکھ اٹھتی ہے کئی بار فلک کی جانب
اور دھرتی کی طرف دستِ دعا جاتا ہے
میں وہ نغمہ ہوں بڑے شوق سے جو شام ?ھلے
گاؤں کے کچے مکانوں میں سنا جاتا ہے
میرے جینے سے کسے کوئی بھی مطلب عاجز
میرے مرنے سے کسی شخص کا کیا جاتا ہے