(Last Updated On: )
نظم:جواب۔۔فرحت نواز
تم کو اپنی ذات کے اندر
کے موسم کا حال کیا لکھوں؟
کیونکہ میں تو کئی رُتوں سے
اپنی ذات سے باہر بیٹھی
راہ تمہاری دیکھ رہی ہوں
ڈاکٹر رشید امجد(1940-2021)اُردو کے عالی مرتبت فن کار تھے۔اِ ن کا پاکستانی اُردو ادب کی اشاعت میں نمایاں کردار رہا تھا۔انھوں نے پاکستانی ادب کی کئی جلدیں مرتب کیں۔کئی ضخیم کتابی سلسلے کے مدیر شہیر رہے۔اقبال،میرزا ادیب اور میراجی پر ان کی گراں قدر تصانیف تحقیق وتنقید کی امتیازی نشان ہیں۔رشید امجد شعبہ افسانے کے واحد صوفی افسانہ نگارتھے جن کا افسانہ مرشد سے شروع ہوکر مرید پر تمام ہوتاتھا۔مرحوم سے کئی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔ ( غ۔الف)
غضنفر اقبال: زبانِ اُردو میں افسانے کی تعریف ممکن ہے؟
رشید امجد: مختصر افسانہ ،نصابی تعریف یہ ہے کہ اس میں وحدت تاثر ہو۔آغاز،پھیلائو،الجھائو اور نقطۂ عروج اس کے چار حصے ہیں۔یہ نصابی تعریف ہے۔ بڑا لکھنے والا ایسی تعریفوں کا پابند نہیں ہوتا۔
غضنفر اقبال: اُردو افسانے کی روایت آپ کے نزدیک کیا ہے؟
رشید امجد: افسانہ مغرب سے آیا ہے اوربیسویں صدی کے اوائل میں اُردو میں اس کا آغاز ہوا۔یوں روایت تلاش ہی کرنا ہے تو داستانوں کی ضمنی کہانیوں کو افسانے کے قریب سمجھا جاسکتاہے۔آخر،داستان گو میر باقر علی نے بھی آخری دور میں روزی روٹی لیے چھوٹی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں لیکن جسے مختصر افسانہ کہا جاتاہے وہ مغرب ہی سے آیاہے۔
غضنفراقبال: کیا کہانی اور افسانہ ایک ہیں؟
رشید امجد: نصابی تعریف کے مطابق ایک نہیں۔کہانی کا کوئی آغاز اختتام نہیں ہوتا۔نہ اس کے چار مرحلے(اوپر ذکر ہے)ہوتے ہیں۔کہانی یوں شروع ہوتی ہے’’ایک تھا بادشاہ رحم دل یا بے رحم‘‘اس سے پہلے کچھ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اسی طرح کہانی ایک ایسی جگہ ختم ہوتی ہے جس کے بعد کچھ ہونا یا جاننا ضروری نہیں۔اس کے برعکس افسانہ درمیان سے ،کہیں سے شروع ہوتاہے۔مثلاً منٹو کا نیا قانون کا’منگو،‘آغاز ہی سے ہمیں منگو کے بارے میں جستجو ہوجاتی ہے اور اس کے حوالے سے کئی سوال ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔واقعات دونوں میں ہوتے ہیں۔کردار بھی ہوتے ہیں لیکن کہانی اورافسانے کے واقعات میں تکنیکی تربیت اور کرداروں کے ارتقا کا تصور مختلف ہے۔ہمارے یہاں مجموعی معنوں میں اب یہ دونوں ایک ہی معنی یعنی افسانے کے لیے مستعمل ہیں۔
غضنفراقبال: جدید افسانے کی نمایاں پہچان اور معتبر افسانہ نگار ہندوپاک میں کون ہیں۔آپ کی نظر میں؟
رشید امجد: کئی لوگ ہیں۔ابتدائی یعنی ساٹھ کی دہائی میںبلراج مین را،سریندر پرکاش،انورسجاد،انتظار حسین،منشا یاد،حمید سہروردی،اعجاز راہی، سمیع آہوجا،خالدہ حسین۔اس کے بعد جدید افسانہ لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ان لوگوں نے تکنیکی اوراسلوبی حوالے سے اُردو افسانے کو نیا آہنگ اور رنگ دیاہے۔
غضنفراقبال: پاکستان میں ترقی پسند افسانہ کس حد تک متاثر کن رہا؟
رشید امجد: ایک زمانے میں ترقی پسند افسانہ ہی اُردو کا نمائندہ افسانہ تھا۔بڑے ناموں کے ساتھ ترقی پسند افسانے نے اردو افسانے کو صاحبِ ثروت بنایاہے۔لیکن ہر دور کا اپنا ایک مزاج اور معیار ہوتا ہے۔ساٹھ کی دہائی تک ترقی پسند افسانہ نگار چھائے ہوئے ہیں ان کے ساتھ وہ بھی تھے جو اگرچہ ترقی پسند تحریک سے باقاعدہ وابستہ نہیں تھے لیکن ان کا رویہ ترقی پسندانہ تھا۔یہ دور اُردو افسانہ کا سنہری دور ہے۔ساٹھ کی دہائی میں نئی لسانی تشکیلات کا آغاز ہواتو افسانہ اور نظم دونوں میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔
غضنفراقبال:’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘آپ کا اولین افسانوی مجموعہ تھا۔یہ مجموعہ1974ء میں منظر عام پر آیا تھا۔پاکستان کے ناقدین افسانہ نے کیا رائے زنی کی تھی؟
رشید امجد: مجموعی طورپر ٹھیک ہی رہا۔لیکن سکہ بند نقادوں خصوصاً ترقی پسند نقادوں نے اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔وہ جدید لکھنے والوں کو اینٹی ترقی پسند سمجھتے تھے یوںبھی ہمارے یہاں اردو افسانے کی تنقید نہ ہونے کے برابر ہے۔میرے ہم عصروں یعنی جدید افسانہ نگاروں میں سے کچھ نے تعریف کی،کچھ خاموش رہے،شخصی اختلافات کی وجہ سے ۔’استعارے‘(انور سجاد)کے بعد یہ جدید افسانے کا پہلا مجموعہ تھا۔اس پر کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا۔
غضنفراقبال: پاکستانی افسانے کے سیاسی وفکری پس منظر میں کون سی باتیں مضمر ہیں؟
رشید امجد: ابن خلدون نے کہا تھا کہ ہر شئے اپنے ماحول کی پیداوار ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اتار چڑھائو نے جو تاریخ مرتب کی ہے ہمارا افسانہ اسی میں سے جنم لیتا ہے۔معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی تناظر بھی اہم ہے۔ہماری ادبی بحثوں میں یہ تناظر بہت نمایاں رہاہے۔بھلے سے ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والوں نے اول اول خود کو غیرنظریاتی کہا لیکن ستر کی دہائی میں وہ سارے نو ترقی پسند ہوگئے۔اس کی وجہ خارجی حالات تھے۔لوگ سڑکوں پراحتجاج کررہے ہوں تو افسانہ نگار کسی کھڑکی سے اس کا تماشا نہیں کرتا وہ خود نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں شامل ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا جدید افسانہ فکری پہلو رکھتاہے جس میں سیاسی سماجی تناظر شامل ہے۔پھرپورے گلوب کی صورتِ حال ہے ۔ نئے موضوعات،نئے فکری جملے،نئی شناختیں ان سب کا ٹکرائو جدید اُردوافسانے کے وہ فکری پہلو ہیں جنھوں نے اس کی شناخت بنائی ہے۔
غضنفراقبال: کیا مابعد جدید افسانہ پریم چند کے افسانوں کی بازگشت ہے؟
رشید امجد: دلچسپ رائے ہے۔اشیاء اپنے آپ کو دہراتی نہیں ہیں لیکن نئی شکلوں میں آجاتی ہیں۔
غضنفراقبال: آپ ایک موقر افسانہ نگار ہیں۔وہ کیا وجہ تھی کہ آپ کی نگاہِ التفات میراجی کی طرف گئی؟
رشیدامجد: کوئی خاص وجہ نہیں۔شعبۂ جاتی ترغیبات،مجھے دوتین موضوع دیے گئے تھے۔میراجی مجھے اچھا لگا۔ان کی شخصیت کے حوالے سے اور ان کے اچھوتے انداز کی وجہ سے۔جب میں نے انھیں پڑھناشروع کیا تو انھوںنے مجھے اپنے اندر کھینچ لیا۔
غضنفراقبال: کیا آپ نے ناول لکھنے کی کاوش کی تھی؟
رشید امجد: دو تین بار کوشش کی تھی لیکن دو تین ابواب سے آگے نہ جاسکا۔ہوتا یہ تھاکہ دوتین ابواب لکھے تو کسی رسالے نے کچھ بھیجنے کی فرمائش کی تو ان میں سے کوئی بھیج دیا۔اسی طرح دوسرا اور تیسرا، چلو جی ختم ہوا۔ناول لکھنے کے لیے جس ریاضت ،فراغت اور ذمہ داری کی ضرورت ہے وہ مجھ میں نہیں۔میں نے ٹِک کر کوئی کام نہیں کیا۔چلتے پھرتے لکھاہے۔
غضنفراقبال: انتظار حسین کے فنِ افسانہ کے پاکستانی افسانے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
رشید امجد: کچھ بھی نہیں۔جدید علامتی افسانہ لکھنے والوں کا اپنا ایک انداز ہے۔روایتی لکھنے والے اپنا روایتی انداز رکھتے ہیں اس لیے انتظار حسین کے اُردو افسانے پر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
غضنفراقبال: کیا ڈاکٹر وزیر آغا افسانوی کردار تھے؟
رشیدامجد: وزیر آغا ہمہ جہت شخصیت تھے۔شاعر،انشائیہ نگار،نقاد اور مدیر کی حیثیت سے ان کی منفرد پہچان ہے۔’اوراق‘نے جدید نسل کی تربیت کی ہے۔ اُس دور میں ’اوراق‘ اور ’شب خون‘دوہی ایسے رسالے تھے جہاں علامتی افسانے اورجدید نظمیں شائع ہوتی تھیں۔دیگر رسائل تو جدید ادب کے خلاف تھے۔وزیر آغا نے نہ صرف اس نئی نسل کو اشاعت کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ ان کی فنی تربیت بھی کی۔اوراق کے مباحث(سوال یہ ہے اور تجزیے) نے جدید لکھنے والوں کو اعتدال کی راہ دکھائی۔علامتی افسانے کے فروغ میں اوراق کا کردار بہت اہم ہے۔وزیر آغابیک وقت مشرقی اور مغربی تنقیدی رویوں سے واقف تھے۔ان کا مطالعہ زبردست تھا۔ جدید مغربی تھیوریوں کو انھوں نے اُردو تنقید میں متعارف کرایا۔ نظری اور عملی دونوں حوالوں سے ان کی تنقید نے اُردو تنقید کو ثروت مندی دی۔اب وہ ایک زندہ روایت ہیں۔ان کے بغیر ہماری اُردو تنقید کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔وہ جتنے اچھے فنکار تھے اس سے زیادہ اعلیٰ انسان تھے۔ اخلاق اور مروت ان پر ختم تھی۔دوستوں کے دوست تھے۔
غضنفراقبال: کیا پاکستان ادیب دوحصے مذہب اور شعروادب میں تقسیم ہوچکے ہیں؟
رشید امجد: آپ کی رائے درست نہیں۔مجموعی طورپر پاکستانی ادیب سیکولر ہیں۔پاکستانی عوام کی اکثریت ہی سیکولر ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملتے۔مذہبی جماعتیں غیر جمہوری ادوار میں آمروں سے اتحاد کرتی ہیں اوران کی بھی ٹیم بنتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ آمر انھیں اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن جب فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے تو یہ جماعتیں ووٹ نہیں لیے پاتیں۔ گزشتہ برسوں میں ہرالیکشن میں ان کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔اس کے برعکس ہندوستان میں عوام مذہبی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور سیکولر جماعتیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔پاکستانی ادیبوں کی اکثریت مذہبی جنونیت اور تشدد کے خلاف ہے اور پچھلے کئی برسوں سے اس حوالے سے بہت لکھا گیاہے۔ترقی پسند تو خیراعلانیہ سیکولر تھے لیکن وہ لوگ بھی جنھوںنے خود کو اعلانیہ ترقی پسند نہیں کہلوایا انھوںنے بھی مذہبی تشدد کی حمایت نہیں کی۔
گزشتہ برسوں سے مزاحمتی ادب کی جو صورت سامنے آئی ہے اس میں ایسے اقدامات اورخیالات کی نفی کی گئی ہے جو معاشرہ کو مذہبی جکڑ بندیوں کی طرف لیے جاتی ہیں۔مذہبی رویہ معاشرے میں ضرور موجود ہے لیکن جنونی حد تک نہیں۔عام پڑھا لکھا شخص اسے پسندنہیں کرتا۔معاشرے کے مجموعی رہن سہن میں مذہب کا ایک مثبت پہلو شامل ہے لیکن مجموعی طورپر معاشرہ ابھی بہت جمہوری اور غیر مذہبی نہیں ہوا ۔ جاگیرداری نظام کی باقیات موجود ہیں۔پنجاب کے خطے میں جاگیرداری نظام تقریباً ختم ہوچکا ہے لیکن جنوبی حصے اور سندھ میں یہ نظام ابھی موجود ہے۔لیکن ان کا مذہب اوراخلاقیات صرف نعرے کی حد تک ہی محدود ہے۔البتہ سرحدمیں ابھی مذہبی اثرات کافی ہیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں وہیں سے اور بلوچستان سے چند سیٹیں لے لیتی ہے۔ادیبوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جب تک مذہب کو شخصی درجہ نہیں دیا جاتا معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
مجموعی طورپر مذہبی یا اخلاقی ادب کی کوئی تحریک عملی طورپر موجود نہیں۔جتنے بڑے لکھنے والے ہیں وہ اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ترقی پسند ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے سے مکالمہ ختم ہوگیا ہے اور بہ ظاہر مولوی طاقت ور ہوگیا ہے لیکن یہ صرف دکھاوا ہے عملاً صورتِ حال مختلف ہے جو ہر الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوجاتی ہے۔
غضنفراقبال: اُردو شاعری میں سراج اور دردصوفی شعرا کہلاتے ہیں۔افسانے میں علم تصوف کو آپ نے فروغ دیا۔اس کی تحریک آپ کو کہا ں سے ملی؟
رشید امجد : میرے خاندانی ماحول نے میرا جو مزاج بنایا اس کی وجہ بچپن کا ماحول ہے۔میرے والد عملی صوفی تو نہیں تھے لیکن صوفیانہ مزاج رکھتے تھے۔ان کی پنجابی شاعری کا سارامزاج اور موضوع صوفیانہ ہے۔والدہ بھی صوفی منش تھی۔میں نے اپنی یادداشتوں میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ کیسے میری والدہ جنھیں خانقاہوں میں جانے کا شوق تھا مجھے بھی ساتھ لے جاتی تھیں۔سری نگر اور اس کے نواح میں کئی کھوئوں میں ایسے مزار تھے جہاں وہ ہر جمعرات کو چراغ جلانے جاتی تھیں۔وظیفے بھی بہت کرتی تھیں۔پھرراولپنڈی آکر ہم جس گھرمیں رہے وہ بھی بہت پر اسرار تھے یوں اسراریت اور غیر موجود و نامعلوم کو جاننے کی خواہش میری گھٹی میں پڑگئی میں خود بھی مجتبائی کتابوں میں درج اُلٹے سیدھے وظیفے کرتاتھا اور اکثر ڈرجاتاتھا،سو ایک خوف پچپن سے مجھ پر طاری رہا لیکن باقاعدہ تصوف کی طرف میں منصورحلّاج کو پڑھ کر متوجہ ہوا۔
مسلم حکمرانی کے ہرزوالی دور میں (سقوطِ اندلس۔سقوطِ بغداد اور سقوطِ دلی)تصوف اپنے عروج پررہا اور اس نے معاشرے کو مجموعی طورپرغیر فعال بنایا۔میں تصوف کو ایک مثبت قدر سمجھتا ہوں اور اسے عمل کے لیے ایک باطنی قوت کہتاہوں۔ تصوف کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ منفی ہے۔اقبال ایسے تصوف کے خلاف تھے۔وہ ایک بارکسی خانقاہ میں گئے وہاں انھیں کسی شخص کے بارے میں بتایاگیا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے صوفی ہیں۔اقبال نے اس سے پوچھا موجودہ صورتِ حال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔اُن سے کہا باباہم صوفیوں کا دنیا کے معاملات سے کیا کام۔اسی پر علامہ اقبال نے کہا’’ بتائیں ایسے تصوف کو میں کیا کروں؟
تصوف کی ایک صورت نظریاتی اوردوسری کراماتی ہے۔ہمارے یہاں کراماتی تصوف پر بہت بات کی جاتی ہے اورکئی ادیبوں کے یہاں اس کا بہت پرچار ہوتاہے۔(مثلاً پاکستان میں قدرت اللہ شہاب،اشفاق احمد،ممتاز مفتی وغیرہ)یہ لوگ تصوف کے نظریاتی پہلوئوں پر بات نہیں کرتے۔کرامات اور کرشموں پر زور دیتے ہیں۔میں نے تصوف کو اس کے نظری پہلوئوں سے دیکھنے اورسمجھنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے میرے افسانوں میں تصوف ایک فکری پہلو رکھتاہے ۔مرشد(میرے افسانوں کا ایک اہم کردار) میری اپنی ذات ہے جو مشکل میں راہ دکھاتی ہے۔میرے افسانوںمیں تصوف مجہول نہیں۔ایک مثبت فکری عمل ہے جو کرداروں کو جدو جہد کی راہ دکھاتاہے۔یوںمیری کہانیوں میں تصوف اور عمل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
درد اُردو کے پہلے صوفی شاعر ہیں۔ان کا دور زوال کا زمانہ تھا۔ان کے فلسفۂ وحدت الوجود نے مایوس لوگوں کو اپنا لینے کا راستہ دکھایا۔ درد نے تصوف کے پردے میں اپنے عہد کے زوال کی تصویر کشی کی۔علامہ اقبال کے وحدت الشہود نے عمل کا راستہ دکھایا۔شیخ احمد سرہندی(مجددالف ثانی)نے بھی اسی عمل کی بات کی۔میرے یہاں تصوف اسی فکر کا تسلسل ہے۔میراخواب معاشرے کو طبقاتی قیود اور مصیبتوں سے نکالنا ہے۔میرے کردار اپنے اندر سے ایک روحانی قوت حاصل کرتے ہیں۔میرے موضوع عام طورپر درمیانی طبقے کی ان چھوٹی چھوٹی خواہشوں سے متعلق ہیں جن کے خواب ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ان خوابوں کی تعبیر نہیں ،لیکن یہ خواب وراثت میں منتقل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
غضنفراقبال: پاکستان میں جمہوریت کا عدم استحکام معاشی بدحالی،ہندوپاک جنگیں،ملک کی تقسیم،رہنمائوں کا قتل،نسلی تنازعات سے اُردو افسانہ کہاں تک اثر انداز ہوا؟
رشید امجد: ادب کی کوئی بھی صنف ہو اس کا موضوع معاشرہ ہوتاہے۔معاشرہ باطنی اور بیرونی دونوں سطحوں پرموجود ہوتاہے۔ بیرونی سطح پر سامنے کے حالات ،سانحات،واقعات ومسائل ہیں۔باطنی سطح پر نظریات،تہذیب وثقافت،مذہبی اقدار موجود رہتی ہیں۔پاکستانی افسانے میں یہ دونوں سطحیں موجود ہیں۔طبقاتی معاشرے میں ہر طبقے کے اپنے اپنے مسائل اور رویے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہر طبقے کی اپنی نفسیات اور سوچ بھی موجود ہوتی ہے۔بڑاادب ان سارے رویوں کو سمیٹتا ہے۔پاکستانی افسانے میں خارجی پہلوبھی نمایاں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ پاکستان سے باہر پاکستان کے بارے میں منفی سوچ زیادہ تر خیالی ہے۔ہمارے جیسے خصوصاً مسلم ممالک میں جو نظام چل رہے ہیں ان کے مقابلے میں پاکستانی جمہوریت خاصی بہتر ہے۔معاشی صورتِ حال بھی اچھی ہے۔میرا خیال ہے کہ پاکستانی فرد معاشی حوالے سے اپنے آس پاس کے ممالک سے بہتر زندگی گزاررہاہے۔نسلی تضادات بھی زیادہ تر خیالی اور فرضی ہیں عملاً صورتِ حال کافی مختلف ہے۔یہ ضرور ہے کہ افغانی جنگ کی وجہ سے پاکستان تشدد کا شکاررہاہے اورماضی میںان پُرتشدد واقعات نے عدم استحکام کے احساس کو بڑا بڑھاوا دیاہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے یہ سلسلہ کافی حدتک ختم ہوگیاہے۔ دھماکے اب خال خال ہی ہوتے ہیں۔اس طرح کی بے اطمینانی تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہے۔ان کی صورت کچھ بھی ہو معاشرے میں بے اطمینانی دکھائی دیتی ہے۔پاکستان میں بہت تصوراتی استحکام تو نہیں لیکن اب صورت بہت بہتر ہے۔بہرحال صورتِ حال جو بھی ہوادب میں افسانے میں اس کا اظہار ہواہے اور ہورہاہے۔
پاکستانی افسانے کو اگر عصری تاریخ کہاجائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔اچھے فن پارے میں مقام اورماورائے مقام دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ پاکستانی افسانے،ظاہر ہے مجموعی بات کی جارہی ہے،نے اپنے عصرکی عکاسی کی ہے۔اس میں نقطۂ نظراور صورتِ حال دونوں موجود ہیں،کوئی بھی ادب اگر اپنے عصرکا ترجمان نہیں تو وہ ادب نہیں۔پاکستانی ادیب بھی ایک جغرافیائی دائرے میں رہتا ہے۔اس دائرے میں ہونے والے اچھے برے دونوں طرح کے معاملات سے باخبر ہے اورذمہ داری سے ان کا اظہار بھی کرتا ہے۔
غضنفراقبال: پاکستان کے احتجاجی افسانے کی تخلیق پرآپ کا کیا احساس ہے؟
رشید امجد: پاکستان میں بہت عمدہ اور فنی طورپر معیاری مزاحمتی ادب لکھا گیا ہے۔یوں تو ادب ہوتاہی مزاحمتی ہے کہ ادیب موجود غلط رویوں کے خلاف آواز اٹھا تاہے۔اس لیے سارا اُردو ادب ایک معنوں میں مزاحمتی ہے لیکن یہاں یعنی پاکستان میں مزاحمتی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو غیر جمہوری ادوار میں لکھا گیاہے اوراس کی نوعیت کسی حدتک سیاسی ہے۔میںنے ضیاء مارشل لاء اور مشرف مارشل لاء میں لکھے گئے ادب کا انتخاب دو جلدوںمیں کیاہے جو جمہوری ادوار میں جمہوری حکومت کے سرکاری اداروں سے شائع ہوئے ہیں۔ غیر جمہوری ادوار میں لکھے گئے ادب کو بھی دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔اول جذباتی نعرے بازی جس میں ادبی فنی اقدار کا خیال رکھنے کی بجائے نعرے بازی زیادہ ہے،دوم وہ ادب جو مزاحمتی رویوں کے ساتھ ساتھ ادبی فنی جمالیات پر بھی پورا اترتا ہے۔مزاحمتی رویوں کے حوالے سے شاعری اورافسانے میں بڑا بھرپور کام ہواہے۔بات وہی ہے کہ عصر کے ساتھ ساتھ ماورائے عناصر ہیں یا نہیں۔کسی ہنگامی موضوع پر جلدی میں لکھی گئی تحریر زندہ نہیں رہتی لیکن اگر لکھنے والا بڑا ہے تو اس کی تحریر میں ایسے عناصر پیدا ہوجائیں گے جو اسے آنے والے ادوارمیں بھی زندہ رکھیں گے۔یہ ہر لکھنے والے کا اپنا کمال اور ہنرمندی ہے۔
غضنفراقبال: پاکستان میں افسانچہ کا وجود ہے ؟
رشید امجد: افسانچہ لکھا جارہا ہے۔اب تو کئی اخباروں میں روزانہ کچھ الفاظ کی شرط کے ساتھ اس طرح کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔بنیادی بات وہی ہے کہ کس تحریر میں موضوع کو کس فنی جمالیات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اب فٹوں سے تو کسی تحریر کوناپا نہیں جاسکتا۔روزانہ کالم کی طرح اگر افسانچہ لکھا جائے گا تو کبھی اچھا بن جائے گا کبھی صرف خبر کی حد تک محدود ہوجائے گا۔ادبی پرچوں میں البتہ افسانچہ قدرے کم ہی نظر آتاہے۔ہر اخباری لکھنے والے کے کام کا انتخاب کیا جائے تواچھی تحریریں سامنے آسکتی ہیں۔جہاں تک افسانہ نگاروںکی مجموعی بات ہے تو بڑے لکھنے والے اس طرف کم ہی متوجہ ہیں۔افسانچہ اب زیادہ تر اخباروں کا حصہ بن گیاہے۔
غضنفراقبال: ڈاکٹر انورسجاد کے افسانے کہاں تک عہد وجود میں معنویت رکھتے ہیں؟
رشید امجد: انورسجاد پاکستان میں جدید علامتی افسانے کے بانیوںمیں شمار ہوتے ہیں۔ان کا مجموعہ’’استعارے‘‘جدید علامتی افسانے کا پہلا مجموعہ ہے۔ انھوںنے موضوع اور زبان دونوںسطحوں پر نئے تجربے کیے ہیں۔لیکن ان کے اسلوب میں روانی نہیں۔ان کا اسلوب حسابی ہے لیکن جدید اُردو افسانے میںان کی اہمیت اور اولیت سے انکار نہیں۔
غضنفراقبال: ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں فنونِ لطیفہ کا اثر ہے۔اس بات میں صداقت ہے یانہیں؟
رشید امجد: میراخیال ہے دونوں ملکوں میں زیادہ اثر نہیں۔اس کی وجہ مذہبی رویے ہیں۔بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں مذہبی جنونیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ساری دنیا اس سے جان چھڑا چکی ہے لیکن ان دونوں ملکوںمیں روزبروز یہ اثرات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے جو معاشرے کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔حقیقی جمہوریت میں یہ رویے آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں میں جو جمہوری نظام لایا گیا ہے اس پر نوآبادیاتی اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔مسائل کو حل کرنے کی بجائے مذہبی نعروں سے ان کی طرف سے توجہ ہٹانے کے رویے دونوں جگہ ایک سے ہی ہیں۔ہم اب تک حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہوئے۔نہ دکھائی دینے والا محکومی کا طوق اب بھی ہمارے گلوںمیں موجود ہے۔
غضنفراقبال: پاکستان میں اُردو افسانے کا مستقبل؟
رشید امجد: ادب کا کارواں چلتا رہتاہے۔ہردس سال بعد ایک نئی نسل زمام تھام لیتی ہے۔جمود کے نعرے صرف تنقیدی ہوتے ہیں۔پاکستان میں نئے افسانہ نگاروں کی ایک نسل اس وقت موجود ہے۔بڑی تعداد ہے جس میں خواتین اور مرددونوں شامل ہیں۔
غضنفراقبال: شعبۂ افسانے کے نئے دیوانوں کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
رشید امجد: نئے لکھنے والوں کو موضوع کے ساتھ ساتھ فن پر بھی توجہ دینی چاہیے۔فنی جمالیات اور ہنرمندی کے بغیرنام نہیں کمایا جاسکتاہے۔ ہر لکھنے والے کو لینن کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ دنیاکا ہربڑا ادب مقصدی ہوتاہے لیکن ہر مقصدادب نہیں ہوتا۔ nnn
فرحت نواز جذبوں کی کوملتا اور نرول پن کی شاعرہ ہے۔اس کے یہاں پُرپیچ فلسفوں اور بڑے بڑے آدرشوں کی جگہ خواب زدگی کی ایک ایسی کیفیت ہے جو اپنے اندر خلوص و محبت کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہے۔ ۔۔۔میرا خیال ہے کہ کسی شعر میں بڑا فلسفہ یا آدرش ہو نہ ہو،خلوص کی کوملتا اور جذبے کا نرول پن ہونا ضروری ہے۔اس حوالے سے مجھے فرحت نواز کے یہاں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
فرحت نواز نے اپنی بہت سی ہم عصر شاعرات کی طرح جنس کے کچے پن کے اظہار کو ذریعہ بنا کر شہرت کی سیڑھی چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔اس کے یہاں جذبہ روح کی ایک بنیادی طلب ہے اور رومان محض جسمانی محبت نہیں بلکہ وجدانی کیفیات کا عکاس ہے۔(تاثرات ڈاکٹر رشید امجد)