” کیا ہوا ہے تمہیں ؟”
” محبت !”
” کیا ؟ کیسی ہے یہ محبت ؟ بنا ملے ، بنا دیکھے ہی؟ اتنی شدید محبت ؟ ”
” ہاں تو اور کیا ! پہلے زمانے میں نہ موبائل تھے ، نہ ٹی وی ، نہ ریڈیو ، نہ ہی کیمرے ، نہ تصویروں کا دور تھا تب بھی تو بنا دیکھے اور بنا ملے ہی محبت ہو جاتی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو ہے۔ تصویروں میں ہی سہی۔ کسی روز ضرور ملوں گی اس سے۔ نہ بھی ملی تو یہ محبت شدید سے شدید تر ہو رہی ہے۔ اور میں اس محبت کے احساس کے ساتھ بہت خوش ہوں۔” میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
” مجھے تمہاری دیوانگی سے خوف آتا ہے۔ تم تو بالکل مجنوں بن گئی ہو۔ عشق کرنے لگی ہو۔ ”
اس نے فکر مندی سے کہا۔
” خبردار ! خبردار ! جو مجھے مجنوں کہا۔ مجنوں پاگل ہوتے ہیں۔ ان میں جنون ہوتا ہے۔ اور عشق کا لفظ مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ اس میں شہوت ہوتا ہے۔ کیا ہم اپنے بھائی ، باپ ، بیٹے ، ماں ، بہن ، بیٹی سے عشق کرتے ہیں؟ نہیں ناں ! کیوں ؟ کیونکہ یہ معتبر رشتے ہیں۔ پاکیزہ اور مقدس رشتے ہیں۔ انہیں عشق کے لفظ سے آلودہ نہیں کیا جاتا۔ میری محبت بھی مقدس ہے۔ اسے عشق کہہ کر آلودہ نہ کرنا۔ ”
میں نے سختی کے ساتھ کہا۔
” اچھا ٹھیک ہے۔ معاف کر دو۔ لیکن تمہاری طرح محبت کرنے والی میں نے پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ کبھی تم اس سے ملو گی ؟ ”
” ان شاء اللہ ! ضرور ملوں گی ! مجھے کامل یقین ہے۔ ایک بار نہیں بلکہ بار بار ملوگی۔ اور تم دیکھنا کے ہر ملاقات کے بعد میری محبت کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔ “میں نے پختہ یقین کے ساتھ کہا۔
” کیا یہ یکطرفہ محبت نہیں ؟ ” اس نے حیرت سے سوال کیا۔
” پتا نہیں۔ اگر وہ مجھ سے مل لے تو یہ دو طرفہ محبت ہوگی۔ ورنہ میں اپنی یکطرفہ محبت میں بھی بہت خوش ہوں۔ میں روز اس سے ملتی ہوں۔ کھلی اور بند آنکھوں سے۔ ”
ایک جذبے کے ساتھ آنکھیں بند کئے میں نے جواب دیا کیونکہ بند آنکھوں کے پیچھے میں اسے دیکھ رہی تھی۔
” تمہیں ڈر نہیں لگتا اپنی محبت سے ؟ اگر تم اس سے نہ مل سکیں تو ؟ کیا حال ہوگا تمہارا ؟ مجھے تو سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ ” اس کا فکرمندی والا لہجہ تھا۔
میں نے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
” تم فکر نہ کرو پیاری۔ جب یقین پختہ ہو ، اپنی محبت پر بھروسا ہو ، لگن سچی ہو اور دعا میں شدت ہو تو مجھے میری محبت سے ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ عزواجل ضرور ملائے گا۔ ”
میں مضبوط قدموں سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور باہر دیکھنے لگی۔ موسم بہت خوبصورت تھا۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ خنک ہوائیں چل رہی تھیں۔ مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو معطر کر رہی تھی۔ اور رم جھم بارش کو دیکھتے ہوئے میں اللہ سے دعا کرنے لگی۔
” اے قادرِ مطلق ! تیرا وعدہ ہے کہ بارش کو دیکھ کر جو دعا مانگی جائے تو اس دعا کو قبول فرماتا ہے۔ میں تیری گنہگار بندی تجھ سے دعا کرتی ہوں ، میری خواہش کو پورا فرما۔ مجھے میری محبت تک پہنچا دے۔ کن فرما دے تاکہ فیکون ہو جائے۔ مجھے تجھ پر کامل یقین ہے کہ میری دعا تو ضرور پوری کرے گا۔ ”
میں نے اپنے موبائل کی گیلری اوپن کی۔ اور روز کی طرح اپنی محبت کو دیکھنے لگی۔ میرے سامنے بیت العتیق ، بیت الحرام ، بیت اللہ ، خانہ کعبہ ، اللہ کا گھر ، مقدس گھر ، میری محبت ، بچپن کی محبت ، شدید محبت ، میرے سامنے تھی۔ میں خانہ کعبہ کی مختلف تصاویر دیکھتے ہوئے اس میں مگن ہو چکی تھی۔ اس یقین کے ساتھ کہ ایک دن میں ضرور اس سے ملو ںگی۔ اور روز روز ملوں گی۔ ان شاء اللہ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...