ممتاز ادیبہ، کالم نویس، افسانہ نگار، محققہ، ادبی، سماجی و سیاسی تجزیہ کار ، مصنفہ ، سوانح نگار ، معروف اینکر پرسن روز نیوز چینل ، گروپ ایڈیٹر روزنامہ پاکستان اسلام آباد اور قومی اور بین الاقوامی مشاعروں کا جانا ، پہچانا نام ، متعدد خوبصورت شعری مجموعوں کی خالق اور سینئر شاعرہ محترمہ عائشہ مسعود ملک صاحبہ کا خوبصورت اور شاہکار کلام بطور خاص پنجند کے با ذوق قارئین کے لیے پیش خدمت ہے*
نعت رسول اللہ ص ۔۔۔۔۔ عائشہ مسعود ملک
گر اجازت ہو محمد کی تو میں نعت کہوں
آپ سے پہلے کے ہر عہد کو میں رات کہوں
اسم ایسا کہ رگ جاں میں اترتا جائے
حسن ایسا کہ جسے نور کی برسات کہوں
وہ جو رستوں کے اندھیروں کو مٹاتے جائیں
کیا بھلا ان کے میں اوصاف و کمالات کہوں
جن کی توصیف میں قرآن اتارا جائے
مجھ میں ہمت ہے کوئی بات کروں بات کہوں
میرے باطن کو اجالیں جو پس چشم گریں
گر نہ چھلکیں میری آنکھوں سے تو برسات کہوں
نعت رسول مقبول ص۔۔۔۔ عائشہ مسعود ملک
غالب کی زمین میں عائشہ مسعود ملک کی غزل
جب تک نہ ہنر عشق کا دلدار میں آوے
تب تک نہ کوئی لفظ بھی اظہار میں آوے
ہم رو بروئے- آئینہ بھی مہر بلب ہیں
پھر آئینہ بھی کس طرح اظہار
میں آوے
اب شہر محبت کا بھی دستور نیا ہو
عاشق بھی کوئی اب کسی دیوار
میں آوے
آسودگئ جاں کے بھی اسباب نہیں ہیں
پھر کون ہے جو وادئ پرخار میں اوے
میں سینئہ صد چاک تیرے ہجر کے باعث
کیوں زکر تیرا پھر مرے اشعار میں آوے
پھر جان تیری صورت -انگار جلے گی
جب بھی تو کبھی عشق کے ازار میں آوے
غزل نمبر 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ مسعود ملک
سر بستہ راز تھا سر بازار کھل گیا
اس نے کیا کلام تو کردار کھل گیا
گو رکھ رکھاؤ سے ملی ہر بار میں اسے
لیکن وہ میرے سامنے ہر بار کھل گیا
سن ہو گئی تھی اور اسے سن رہی تھی میں
ایسے وہ مجھ پہ صاحب گفتار کھل گیا
کانوں میں گھل گئی کسی جھرنے کی جلترنگ
آنکھوں کے سامنے مرے گلزار کھل گیا
نازک سا ایک جوڑے میں جوہی کا پھول تھا
کھلتا نہ تھا مگر بصد اصرار کھل گیا
میں نقد جاں گنوا کے بھی خاموش ہوں مگر
ہے کون کون میرا خریدار کھل گیا
غزل نمبر 3 ۔۔۔۔ عائشہ مسعود ملک
یہ کس نے ہم سے خریدے تھے خواب سستے میں
وگرنہ ہم تو نہ دیتے سراب سستے میں
نہ جانے کتنی قیامت بہار پر گزری
بکے تھے شہر میں جس دن گلاب سستے میں
نہ اس قدر بھی تھے ارزاں سوال جتنے تھے
کہ جس قدر بھی دیئے ہیں جواب سستے میں
یہ فیصلہ ہے ہمارا کبھی کبھی نہ بیچیں گے
کوئی جو ہم سے خریدے کتاب سستے میں
یہ زندگی کا فسانہ بہت ہے مشکل سا
نہ کھل سکا ہے کسی پر یہ باب سستے میں
غزل نمبر 4 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ مسعود ملک
محفل میں چل پڑی تھی تری گفتگو
معا ”
خوشبو سی ایک پھیل گئی چار سو معا”
یہ اتفاق تھا کہ محبت کا معجزہ
اک پل میں دور تھا جو وہی روبرو معا”
ہر چند تجھ سے ترک تعلق ہوا مگر
اس دل کو ہو رہی ہے تری آرزو معا”
جو دیکھنے میں حسن مجسم نہیں رہا
میزان عشق میں تھا وہی خوبرو معا”
قصے زبان خلق پہ جب ا گئے تو پھر
باتیں دلوں کی پھیل گئیں کو بکو معا”