یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں لچھن کو کرسیء افسر مجاز پر جلوہ افروز ہوئے کچھ عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک روز اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ حکومت کی طرف سے ایک سر کلر جاری کیا گیا کہ سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں اوقاتِ کار کے دوران وقفے میں ظہر کی نماز کا اہتمام کیا جائے۔ یہاں تک تو بات بالکل ٹھیک تھی مگر ایک شرط تجویز کی شکل میں یہ تھی کہ نماز کی امامت دفتر کا سربراہ کرے۔
یہ تو ہم بھی جانتے تھے کہ میاں لچھن میں اور کوئی خوبی ہو یا نہ ہو جمعہ کی نماز بڑی باقاعدگی سے شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد میں ادا فرمایا کرتے تھے اس نماز کے لئے اہتمام ایک روز قبل ہی ہو جایا کرتا تھا۔ واسکٹ استری کر کے لٹکا دی جاتی، جالی دار ٹوپی کو بھی دھوکر سکھا لیا جاتا، خوشبو کی شیشی سامنے انگیٹھی پر رکھ دی جاتی، مبادا بھول جائیں اور بغیر خوشبو نماز ادا کر کے ثوابِ زائد سے محروم ہو جائیں۔ موسم گرمی کا ہو یا سردی کا شلوار قمیض پر واسکٹ لازمی جزو ہوتی۔ پورے ہفتے میں صرف جمعہ کی نماز ادا فرما کر سمجھتے کہ سات دنوں کے گناہوں کا کفارہ ادا ہو گیا ہے۔
میاں لچھن کی اس مستقل مزاجی سے ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے تھے کہ انہیں حکومت کے اس سر کلر سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا اور ان کی کرسیء اختیار اسی طرح قائم و دائم رہے گی۔ جناب رحمت اللہ صاحب المعروف میاں لچھن سربراہ دفتر نے اس سر کلر کی روشنی میں ایک چھوٹی سی سٹاف میٹنگ کا اہتمام کیا۔ ماتحتوں پر سرکلر کے مقاصد عیاں کئے، نماز کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور تاکید کی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ثواب کمانے کا آسان طریقہ بہم پہنچا ہی دیا ہے۔ تو اس سے ہر کسی و ناکس کو ضرور فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی میاں لچھن نے سٹاف کو ہدایت کی کہ کل دفتر میں ظہر کی نماز ادا کی جائے گی اور یہ کہ سرکلر کے مطابق امامت کا فریضہ وہ خود سر انجام دیں گے۔ مبادا وقت نماز کوئی ان کے مقابل امامت پر اتر آئے۔
میاں لچھن اس روز بہت خوش تھے۔ ساری عمر مقتدی رہے آج خداوند تعالیٰ نے افسری بھی عطا کی تھی اور امامت بھی ملنے والی تھی۔ وہی اہتمام جیسے جمعہ کی نماز پڑھنے جا رہے ہوں وقفے کا شدت سے انتظار کرنے لگے کہ کب امامت کا فریضہ انجام دیں اور ثابت کریں کہ افسر صرف دنیا وی علوم میں ہی طاق نہیں ہوتے بلکہ مذہبی معاملات میں بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔
خدا خدا کر کے وقفہ ہوا۔ سٹاف نے ایک خالی کمرے میں نماز کا اہتمام کیا تھا۔ سٹور روم سے ایک دری نکال کر صفیں بنائی گئیں۔ امام صاحب کے لئے البتہ مصلہ بازار سے نیا خریدا گیا۔ صرف یہی طریقہ افسر اور ماتحتوں میں امتیاز قائم رکھنے کا رہ گیا تھا۔ نماز میں محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک افسر اور ماتحت کھڑے نہیں ہو سکتے۔ دفتر کے ایک کونے میں لگے نلکے سے تمام حضرات نے وضو کیا تین عدد سائل اس وقت دفتر میں کسی کام سے موجود تھے۔ انہوں نے نماز کا اس قدر اہتمام دیکھا تو جذبہ دینی سے متاثر ہو کر شامل نماز ہونے کی اجازت چاہی۔ وضو کیا اور صف پر بیٹھ گئے۔
ایک کلرک بادشاہ نے اذان دی۔ پتہ نہیں کلرک بادشاہ کے انداز خوش الحانی کا اثر تھا یا گناہوں کے اعتراف سے شرمساری تھی کہ تینوں سائل جو بڑے شوق سے نماز میں شامل ہونا چاہتے تھے صفوں سے بمع وضو اٹھ کر چلے گئے۔ باقی وہی ارکان سٹاف رہ گئے۔
سنت سے فارغ ہو کر فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ آیا۔ جملہ ارکان دو صفوں میں بلحاظ عہدہ کھڑے ہو گئے اور سب سے آگے امامت پر سربراہ دفتر جناب رحمت اللہ المعروف میاں لچھن۔
ایک کلرک بادشاہ نے تکبیر کہنا شروع کی تو فجر کی اذان کہہ دی یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت دفتر میں ایمان و نورسحر ہی طلوع ہو رہی تھی۔ اس لحاظ سے قد قامت الصلواة کی بجائے الصلٰوة خیر من النوم کہنا ہی زیادہ بہتر تھا۔ مگر امام اور مقتدی تو جاگ رہے تھے ایک منہ پھٹ نے اعتراض کیا اور بڑھ کر تکبیر دوبارہ کہہ دی۔ میاں لچھن نے ایک نظر مقتدیوں پر ڈالی اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں کو لگائے۔ نماز شروع ہو گئی مگر یہ کیا! میاں لچھن نے تھوڑی ہی دیر بعد قرأت شروع کر دی تھی۔ مقتدیوں میں پہلے تو چھوٹے صاحب نے سبحان اللہ کہہ کر ٹوکا، میاں لچھن پر ذرا اثر نہ ہوا تو باری باری سٹاف کے دوسرے ارکان نے بھی لقمہ دیا اس پر بھی میاں لچھن ٹس سے مس نہ ہوئے تو سٹاف ممبران نے یک زبان ہو کر سبحان اللہ کہی مگر میاں لچھن کی قرأت جاری رہی۔ سٹاف ممبران یہ سوچ کر چپ رہے کہ شاید سرکاری سرکلر میں ظہر کی نماز قرأت سے پڑھانے کا ہی حکم ہو۔
ابھی سٹاف ممبران بے وقت کی قرأت کے معمہ سے تذبذب میں تھے کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔ میاں لچھن نے دوسری رکعت کے بعد ہی سلام پھیرا اور نماز ختم کر دی۔ مقتدی گم سم بیٹھے کسی نئے حکم انتظار کر رہے تھے۔ اگر کوئی دفتری یا دنیاوی معاملہ ہوتا تو وہ چپ سادھ لیتے آخر انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ افسر غلطی پر ہو تو تب بھی وہ سچا ہوتا ہے۔ مگر یہ تو خالصتاً مذہبی معاملہ تھا۔ ایک نچلے ماتحت نے اس جرأت پر کہ اگر بڑے صاحب نے کوئی دھمکی دی تو بڑی سفارش سے معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے۔ ہمت کر کے کہا! صاحب آپ نے نماز صحیح نہیں پڑھائی!۔ میاں لچھن پہلے ہی مقتدیوں کی سبحان اللہ کی تکرار سے آپے سے باہر تھے نچلے درجے کے ملازم کی اس گستاخی پرتو بالکل سیخ پا ہو گئے۔ منہ مقتدیوں کی طرف کیا اور دو زانوں ہو کر گرجدار آواز میں پوچھا ’’تم مجھ سے بہتر جانتے ہو‘‘۔ سفارش زدہ جرأت مند مقتدی بھی اپنی توہین بر داشت نہ کر سکا اور بولا ’’آپ دفتر کے صاحب ضرور ہیں کوئی مذہبی ٹھیکیدار نہیں جو چار رکعتوں کو دو میں تبدیل کر دیں اور غیر قرأت کو قرأت سے پڑھیں‘‘
میاں لچھن اس کھلے حملے اور جملہ اراکین سٹاف کے سامنے اپنی اس بے عزتی کو برداشت نہ کر سکے اور ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ’’تمہارے پاس کس علامہ کی ولایت کا سرٹیفکیٹ ہے میں نے زندگی میں کبھی جمعہ کی نماز قضا نہیں کی اور شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد کے امام کو ہمیشہ اس وقت کی نماز میں دو رکعتیں قرأت کے ساتھ ہی پڑھتے سنا ہے۔ اس بات کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں لوگ گواہ ہیں جو وہاں جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ تم اکیلے مجھے کیسے چیلنج کر سکتے ہو؟۔‘‘
میاں لچھن کے اس وضاحتی بیان پر قریب تھا کہ جملہ سٹاف ارکان کے قہقہے ابل پڑتے۔ پھر یکدم خوف خدا یا خوف افسر یا پھر بقول شاعر منظور تھا پردہ تیرا، ان کے قہقہے رک گئے۔ انہیں میاں لچھن کے مذہبی علوم پر دسترس کا بخوبی علم ہو گیا۔ پھر کسی کو خیال آرائی کی ہمت بھی نہ پڑی۔ کسی نہ کسی طرح معاملہ وہیں رفع دفع ہو گیا۔ جملہ ارکان سٹاف نے چپکے سے اپنی نماز دھرائی۔ دوسرے روز بڑے صاحب سے مشورے کے بعد سٹاف میٹنگ میں چھوٹے صاحب نے تجویز پیش کی کہ چونکہ بڑے صاحب بہت مصروف آدمی ہیں۔ سرکاری سرکلر میں ترمیم کر کے 7امامت کے لئے بیرونی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ میاں لچھن کو اعتراض تو تھا مگر جملہ سٹاف کے متفقہ فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے چپ رہے اور بطور احتجاج نماز ظہر کی امامت تو کیا اقتداء میں بھی شرکت نہ کی۔ دس پندرہ روز مختلف بہانوں سے نماز کے وقت کھسک جاتے۔ رفتہ رفتہ باقی ارکان نے بھی کھسکنا شروع کر دیا۔ چند روز بعد ہی نماز کی صفوں پر صرف مولوی صاحب ہی نظر آنے لگے تو انہیں بھی اندیشہ نقص اختلاف دفتری کے پیش نظر رخصت کر دیا گیا اور یوں صاحب اور ماتحتوں کے حالات معمول پر آ گئے۔
میاں لچھن کو اب بھی یقین ہے کہ ظہر کی نماز کا وہی طریقہ ہے جو شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد میں جمعہ کے روز ہزاروں افراد کی موجودگی میں مولانا صاحب اختیار کرتے ہیں۔ (تیس روزہ چاند اکتوبر 1989ء )
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...