(Last Updated On: )
دریا کے گہرے باطن میں
نادیدہ انبوہ پس انبوہِ رواں رہتا تھا لیکن
سطحِ آب پہ آ کر جو معروف ہوئیں وہ اسم نما لہریں کتنی تھیں
اور گہر
جو ساحل کی منظر گاہوں میں
ایک منور لمحے کی انگشتِ حنائی میں چمکا
وہ گم نامی کی ظلمت میں
بسنے والے ہم زادوں سے کیوں بچھڑا تھا؟
اور پرندہ صحرا کا
اپنی بے مشہور صدا کے سناٹے میں ڈوبا تھا
کیوں ڈوبا تھا؟
اور گل رونق پر امڈی آنکھوں نے
غفلت کی بے مہری سے
سبزے کو ہر آتے جاتے موسم میں پامال کیا
آخر کیوں ؟
شاید یہ امکان کی اپنی منطق ہے
شاید ہر شے
یکساں دہرائے جانے والے فعلوں کی زد میں ہو
کیا معلوم کہ
اس جمہور کی بے نام آور آبادی
جس میں ہم بھی شام ہیں
ہستی کی دانست میں ہو
٭٭٭