(Last Updated On: )
قید خانے کی دیوار پر انگلیوں کے نشان
ناخنوں کی خراشیں
سزا یافتہ مجرموں کی شب و زر سر پھوڑنے کی صدا
تیس برسوں سے رو کی ہوئی سانس
سینے میں سولی کی مانند لٹکتی ہوئی
اور آنکھوں کے جلتے ہوئے دائرے سے نکلنے کی
ممنوعہ سڑکوں پہ پھرنے کی خواہش کا
تاوان۔۔ ۔۔ ہر سوچ کی نامرادی
(بگولے کی زنجیر کو خار و خس توڑ سکتے نہیں )
نینوا کے اندھیرے کنوئیں، دل کے پاتال میں
کوئی برسوں سے گرتی ہوئی چیخ
ہاروت و ماروت کو چھو کے لوٹی نہیں
آسماں اتنا اونچا ہے
پاؤں کی اکڑی ہوئی انگلیوں پہ کھڑے
بازوؤں کو اٹھائے ہوئے، سوچتا ہوں۔۔ ۔۔ کہ چھولوں اسے
تیس برسوں کی روکی ہوئی سانس چلنے لگے
٭٭٭