اگر مجھ سے اسلامی مشرق کی فکری تنظیموں کے بارے میں سوال کیا جاۓ تو میں بلا توقف معتزلہ اور اخوان الصفا کا نام لوں گا۔ یہ نشست معتزلہ ہی سے مخصوص ہے اور ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو کئی نشستوں تک جاری رکھا جاۓ ۔ فی الحال تحریکِ معتزلہ کے سلسلے میں ایک سرسری جائزہ پیش کرنا ہے ۔ اس کے بعدا کابرِ معتزلہ اور فلسفۂ معتزلہ کی بحث شروع کی جاۓ گی۔
معتزلہ کا یہ امتیاز ہمیشہ باقی رہے گا کہ انھوں نے اسلامی تاریخ کے خالص سیاسی دور میں اس قدیم ترین فکری ورثے کی حفاظت اور احیا کا فرض انجام دیا جو اسرائیلی دانش وروں نے چھوڑا تھا۔ علاوہ ازیں رہبانِ مسیحیت اور آباۓ کنیسہ سے متاثر ہو کر یونان اور
روم کے ان علمی افکار کو اسلامی حلقوں میں ایک تحریک تنظیم کے ساتھ روشناس کرایا جو انطاکیہ اور اسکندریہ کی خانقاہوں میں زیرِ بحث رہا کرتے تھے۔
ابتدا میں تحریکِ اعتزال کےاکابر نے انھی موضوعات کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا تھا۔ جو خالصتاً عقائد سے متعلق تھے لیکن جس دن سے معتزلہ کی دوسری نسل کا آغاز ہواتو بتدریج یہ تحر یک بنیادی طور پر ایک علمی اور عقلی تحریک کا انداز اختیار کرتی چلی گئی اور اس نے اشاعرہ کے برخلاف نقل کے بجاۓ عقل کو حَکم قرار دیا اور واضح طور پر اعلان کر دیا کہ خیر وشر کا تعین اور حُسن وقبح کا فیصلہ عقل کرتی ہے اور ہمیں محض عقل پر اعتماد کرنا چاہیے جب کہ اشاعرہ اس کے برعکس راۓ رکھتے تھے نکلسن کہتے ہیں کہ ” اشعریت کا عروج فلسفے کی موت اور عقل پر سے اعتماد اٹھ جانے کا اصل سبب تھا ۔“
معتزلہ کا تاریخی اور سیاسی پس منظر:
چیز یں اپنے عہدِ آغاز سے قبل ہی موجود ہوتی ہیں ۔ بہ ہر حال تاریخی طور پر جس دور میں تحریکِ اعتزال کا با قاعدہ آغاز ہوا وہ دوسری صدی ہجری کا پہلا عشرہ ہے ۔ اس تحریک کے ساتھ مبصرانہ خلوص برتنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلی صدی ہجری کے ذہنی اور واقعاتی نشیب وفراز کو پوری طرح ملحوظ رکھیں اس لیے کہ بینجر یک پہلی صدی ہجری کے بطن ہی سے پیدا ہوئی تھی ۔ میں بعض بنیادی محرکات اور عوامل کو واضح کرنے کے لیے اپنی گفت گو کاسلسلہ ۴۰ھ سے شروع کروں گا۔ لہذا آپ یوں تصور کیجیے کہ جنگ صفین اپنے عواقب و نتائج کے ساتھ ختم ہو چکی ہے ۔صحرائے عرب کے دہشت پسند قبائل لاحکم الا اللّہ کے نعرے بلند کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ حضرت علی کو مسجدِ کوفہ میں دہشت انگیز طور پرقتل کیا جا چکا ہے اور گویا شام کے مقابلے میں عراق کو نا گہانی طور پر مکمل شکست ہو چکی ہے۔
اس وقت اسلامی معاشرہ خفیف استثنا کے ساتھ لازماً دو ہی قسم کے افراد پرمشتمل ہے، یعنی ان میں سے بعض قاتل ہیں اور بعض مقتولین کے سوگ داریعنی علی العموم حالات اور ان کے نتائج سے
غیر متعلق کوئی نہیں ۔ غیر جانب دارافراد کے لیے غیر جانب دار رہنا مشکل ہو گیا ہے ۔ مثبت اور منفی اقدار آپس میں کچھ اس طرح پیوست ہیں کہ تمیز محال ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن ایک عذاب میں مبتلا ہیں ۔افکار میں توازن اور طبیعتوں میں رسوخ و وثوق باقی نہیں رہا ہے ۔
۴۰ھ کے بعد ۶۲ ھ اور ۶۳ھ تک پہلے سے کہیں زیادہ شدید حالات پیش آچکے ہیں ۔ ہم سنتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللّہ ابنِ عمر کے پاس آیا جس کی تلوار مقدّس انسانوں کے خون سے رنگی ہوئی تھی اور اس نے سوال کیا کہ مجھ سے ایک مچھر ہلاک ہو گیا ہے ۔اس کی دیّت (خون بہا ) کیا ہوگی؟ اس ذہنی تضاد اور دماغی انتشار کا اصل سبب یہ ہے کہ عہدِ صحابہ سے لے کر عہدِ تابعین تک اسلامی تاریخ کی بیش قیمت ترین ہستیاں خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکی ہیں ۔اگر چہ پہلی صدی ہجری کا دوسرا نصف حصہ بھی قریب الختم ہے اور اس عرصے میں اُموی حکومت نے سیاسی طور پر کئی منظّم اور مستحکم دور بھی گزار لیے ہیں مگر ذہنی سطح پر اب بھی اضطراب اور تموّج باقی ہے بل کہ بڑھ رہا ہے۔
کوفہ و دمشق کے مابین قریوں، خیمہ گاہوں، نخلستانوں اور شہروں میں مخالفانہ اور موافقانہ انداز میں گزرے ہوئے واقعات کا تذکرہ اب بھی جاری ہے لوگ اپنی صبح و شام کی سیر گاہوں میں اکثر انھی واقعات پر گفت گو کرتے ہوئے چلتے ہیں ۔ عراق اور شام کے درمیان کی مسافتیں قطع کرنے والے راحلے ایک زمانے سے ان باتوں کو سنتے رہے ہیں ۔
کوفے میں آۓ تو یہاں مسجدوں میں یہی بحثیں جاری ہیں ۔
یہی وہ فضا تھی جس میں اسلامی تاریخ کا مشہور ترین نظر یہ مرجئیت وضع کیا گیا مرجئیت کا لفظ ارجا سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں امید دلانا آپ مرجئیت کو اخلاقی مجرموں اور ظالموں کا وکیل قرار دے سکتے ہیں کہ اس مکتبۂ خیال کی مخلصانہ کوشش یہ تھی کہ جرائم اور مظالم کے ساتھ خیر اندیشی اور حسنِ ظن کا سلوک اختیار کیا جاۓ ۔ بہ ہرحال انسانی اقدار کے ساتھ اس مکتبۂ خیال کا برتاؤ کافی دل چسپ تھا اس ماحول میں جبریت نے بھی اپنے مدرسے کا افتتاح کیا۔ جہم ابنِ صفوان جبریت کا ایک ممتاز مبلغ تھا اس لیے اس دور کے جبری خیالات جہمیت کے نام سے مشہور ہوۓ جہمیت اور مرجئیت کے خلاف حسن ابنِ محمدحنفیہ نے
نظریۂ قدرو اختیار کی اساسیں قائم کیں ۔ دو اسلامی تاریخ کے پہلے قدری مفکر تھے ان کے ایک دوسرے ہم عصر دانش ور، معبد جہنی نے بھی اسی نظریے کی تائید وتبلیغ کی ،قدریت کا یہ تیز زبان دانش و راکثر شاہ راہوں سے یہ کہتا ہوا گزرتا تھا کہ:
هولاء الملوك ليسفكون دماء المسلمين وياخدون اموالهم ويقولون انما تجرى اعمالناعلى قدر اللّہ.
” یہ حکم ران مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں انھیں لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال تو قضاۓ الہٰی کے مطابق ہیں“۔
۸۰ھ میں عبدالملک نے معبد کو اس کے انھیں خیالات کی بہ دولت قتل کرادیا۔ اس قتل کے بعد غیلان دمشقی نے جو حسن ابنِ محمدحنفیہ اور معبد جہنی کا شاگردتھا قدریت کی پُر زور تبلیغ شروع کی اس کی تبلیغ کے زیرِ اثر عراق ہی نہیں حجاز میں بھی اکثر ا کابر مرجئیت و جبریت کے خلاف ہونے لگے تھے۔
یہ صورت حال حکومت کے لیے ناساز گار ثابت ہوتی اس لیے ہشام نے غیلان دمشقی کو قتل کرا دیا۔ یہ تاریخ کا بڑا ہی درد ناک قصہ ہے ۔ اولاً اس کے ہاتھ قطع کیے گئے پھر پیر اور زبان ،اس کے بعد ذبح کر دیا گیا۔ اس کے ہم خیال دوست اور رفیقِ کار صالح کو بھی یہی سزا دی گئی۔ کہتے ہیں کہ یہ دونوں آخر وقت تک اپنے نظریات پر
قائم رہے یہ ۱۰۵ھ کا واقعہ ہے ۔ غیلان کو اس کی ہمت ،دانش وری اور انجام کے اعتبار سے سقراطِ مشرق کا لقب دیا جانا چاہیے ۔
دنیاۓ اسلام میں اس وقت جو مکاتبِ فکر قائم تھے ان کو غالباً اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ا۔ اُموی مکتبۂ فکر : اسے سرکاری مکتبۂ فکر کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ مرجئیت اور جبریت کا قائل تھا۔ اس مکتبے کی توجیہ اس کے سیاسی مقاصد کوپیشِ نظر رکھ کر ہی کی جاسکتی ہے ۔
۲۔ مکتبۂ اہلِ حدیث: یہ علی ( رضی اللّہ)و معاویہ دونوں کے اسلام و ایمان کا قائل تھا البتہ اسکے خیال میں حضرت علی حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ سے خطاۓ اجتہادی سرزد ہوئی تھی ۔
۳۔ مکتبۂ زہاد: اس کے سر حلقہ امام حسن بصری تھے۔ اس مکتبے کا ارتقا مختلف اثرات و عوامل کے تحت تصوف کی شکل میں ہوا۔
۴۔ ہاشمی مکتبۂ فکر : اس کے بانیوں میں حضرت علی کے پوتے امام ابو ہاشم عبداللّہ اور ان کے بھائی حسن ابنِ محمدحنفیہ کے نام آتے ہیں اور ممتاز داعیوں میں معبد جہنی اور غیلان دمشقی شامل ہیں ۔ یہ لوگ حریّتِ ارادۂ انسانی یا نظریۂ اختیار کے مبلغ تھے۔خلفاۓ عباسی کے مورثینِ اعلٰی بھی اس مکتبۂ فکر میں شامل تھے اور امام ابو ہاشم کی وفات کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم ان کے جانشین ہیں۔ اس مکتبۂ فکر کے پیش نظر کچھ سیاسی مقاصد بھی تھے ۔ اس مکتبے نے بنواُمیہ کے خلاف خفیہ تحریکیں چلائیں جن کے نتیجے میں خاندانِ عباسی کی عظیم خلافت قائم ہوئی البتہ ان سیاسی مقاصد کو اس مکتبے کے بانی امام ابو ہاشم سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ یہ مقاصد خلافت عباسیہ کے داعیوں نے تجویز کیے تھے۔
۵۔ فاطمی مکتبۂ فکر : اس کے نگران امام محمد باقر تھے یہ مکتبہ بھی حریّتِ ارادہ اور قدریت کا قائل تھا۔ ہاشمی مکتبۂ فکر اور اس مکتبۂ فکر کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف نہیں اس مکتبے میں مابعدالطبیعی اندازِ نظر بہت مقبول ہوا اور علمِ کلام تو گویا اس سے مخصوص ہے ۔
۶۔ خوارج: یہ جماعت ہر مکتبے کے خلاف تھی اس کا خیال تھا کہ حضرت علی امیر معاویہ اور ان کے ساتھی کافر ہیں ۔ ان مکاتب میں مرجیۂ اور خوارج کے علاوہ کم و بیش سب ہی قدیم فلسفیانہ افکار سے متاثر تھے۔البتہ مکتبۂ اہل حدیث پر فلسفیانہ افکار کا بہت ہی کم اثر تھا۔ تحریکِ اعتزال کے ظہور میں ان مکاتب کا بڑا دخل ہے ۔انھی کانہیں بل کہ جہمیہ اور خوارج کا بھی ۔
معتزلہ کا آغاز:
پہلی صدی ہجری کے اس ذہنی پس منظر میں معتزلہ کا ظہور ہوا، ۱۱۰ یا ۱۱۱ھ کا واقعہ ہے۔ امام حسن بصری شاید عصر کی نماز کے بعد مسجد میں اپنے حلقے کے درمیان بیٹھے ہوۓ بعض مسائل پر گفت گو کر رہے تھے کہ ناگاہ ایک شخص داخل ہوا اور اس نے امام حسن بصری سے مخاطب ہوکر کہا کہ:
” یا امام الدین! ہمارے زمانے میں ایک جماعت ظاہر ہوئی ہے جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر بتاتی ہے۔ یہ لوگ خارجیوں کے ایک فرقے وعیدیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک دوسری جماعت ہے جو گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کے لیے مغفرت کی اُمید رکھتی ہے ۔اس کے خیال میں گناہِ کبیرہ کے ارتکاب سے مسلمان کے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا جس طرح حالتِ کفر میں اطاعت و عبادت کرنے سے کفر میں کی نہیں آجاتی ۔ یہ لوگ مرجیہ کہلاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں آپ کی راۓ کیا ہے؟“
امام حسن بصری نے یہ تقریر سُن کر سر جھکا لیا اور کچھ غور کرنے لگے اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے ایک ۳۰ یا ۳۱ سالہ جوان جواپنی ہیئت اور کیفیت سے فلسفی معلوم ہوتا تھا حلقے کے درمیان سے یہ کہتا ہوا اُٹھا کہ ”میں گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو مومن یا کافرنہیں کہوں گا بلکہ وہ ان دونوں منزلوں کے درمیان ہے“
(المنزلۃ بین المنز لتمین ) یعنی نہ وہ کافر ہے نہ مومن اور ایک ستون کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اس موضوع پر تقریرکر رہا تھا۔
امام حسن بصری نے تقریر سُن کر کہا کہ ”اعتزل عنا واصلٌ“ واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
امام عبدالکریم شہرستانی نے بھی اپنی مشہورِ عالم تالیف ”کتاب الملل والنحل“ میں یہ واقعہ اسی ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے یہ جو ان معتزلہ کے بانی واصل ابنِ عطا غزال تھے
اس دن سے ان کو اور ان کے ہم خیالوں کو معتزلہ کہا جانے لگا۔
واصل ابنِ عطا ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۳۱ھ میں وفات پائی ۔امام ابو ہاشم اور ان کے بھائی حسن ابنِ محمدحنفیہ نے ان کو
تربیت دی تھی ۔ وہ ابھی دونوں کے شاگرد تھے اور نظریۂ اعتزال انھی بھائیوں کی تعلیمات کے زیرِ اثر قائم کیا۔
خود امام ابو ہاشم کی شخصیت واصل ابنِ عطا سے کہیں زیادہ تشریح طلب ہے وہ بڑی پراسرار اور سوالات آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی مشرق کی کئی فکری تننظیمیں اور تہ نشین تحریکیں انھی کے زیرِ اثر ظہور پذیر ہوئیں وہ افلاطونی خانقاہوں کے دانش
وروں سے مشابہہ تھے۔ نوافلاطونی راہیوں کی طرح ان کی مبہم شخصیت کے گرد بھی عظمت و اسرار کے ہالے نظر آتے ہیں۔
امام ابو ہاشم کی وفات کے بعد واصل، امام حسن بصری کے حلقے میں شامل ہو گئے ۔ معتزلہ کے یہ عظیم بانی اپنے وقت کے ایک متبحر عالم، جید ادیب اور بے مثال خطیب تھے ۔ بیان کیا جا تا ہے کہ ان کی زبان سے حرف (ر ) کا صحیح تلفظ نہیں ہوتا تھا۔اس لیے وہ اپنے بسیط خطبوں میں بے تکلف ایسے الفاظ استعمال کرتے چلے جاتے تھے جن میں (ر ) کا حرف ہی نہ آۓ کسی نے کہا کہ جناب آپ ”اسرج الفرس“( گھوڑے کو زین لگاؤ) کے بجاۓ کیا جملہ استعمال کر یں گے۔کہا کہ”البدالجواد ۔“
ایک بارکسی اور شخص نے امتحاناً سوال کیا کہ”رکب فرسہ وجرو ورمحہ“ (وہاپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور نیزہ تان لیا ) کی جگہ آپ کیا کہیں گے؟ یہ ایسا جملہ ہے جس کے ہر لفظ میں حرف ( ر )
آیا ہے بہ ہر حال واصل نے فورا کہا کہ استوی علی جواده و سحب عاملہ اس لیے
ایک شاعر نے ان کی مدح میں کہا تھا۔
علیم بابدال الحروف و قامع
لكل خطيب يغلب الحق باطله
وہ ایک حرف کے بجاۓ دوسرا حرف استعمال کرنا جانتے ہیں اور ہر مقررکوشکست دے دیتے ہیں ۔ان کی غلط راۓ بھی دوسروں کی صحیح راۓ پر غالب آ جاتی ہے۔
معتزلہ۔ ایک فکری تحریک
( کتاب: فرنود | مضامین | جون ایلیا )
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...