ہندوستانی، مصری اور چینی صنعتکاروں کو اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ برٹش کالونیل حکومت ان کے مفادات کی حفاظت نہیں کر رہی۔ اس کے لئے ترجیح لنکاشائر کی صنعت ہے۔ یہ طبقہ کالونیل حکمرانی کے خلاف ہونے لگا۔ حکومت پر تنقید کی جانے لگی۔ سب سے زیادہ تیزی سے یہ ہندوستان میں ہوا۔
ہندوستان میں سرمایہ کار سیاسی طور پر متحرک ہوئے۔ ممبئی میں مل اونرز ایسوسی ایشن بنی۔ احمد آبادی میں گجراتی انڈسٹریل ایسوسی ایشن بنی۔ ان کی پہلی جدوجہد انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی جو ایکسائز ٹیکس پر تھی۔
انڈین نیشنل کانگریس کی احمد آباد میں 1902 کی میٹنگ میں مطالبہ کیا گیا کہ” ٹیکسٹائل انڈسٹری پر عائدکردہ ٹیکس کم کئے جائیں۔ یہ انڈین صنعت کے لئے غیرمنصفانہ ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ہندوستانی نیشلنسٹ اور صنعتکاروں کا اتحاد ہوا جو برطانوی کالونیل ازم کے خلاف تھا۔ پونا میں بال تلک جیسے انتہاپسند نیشلنسٹ نے کاٹن ڈیوٹی کے خلاف ہڑتال کر دی۔ ان کے مطابق یہ ٹیکس “ہندوستان کے خلاف جرم“ تھے۔ بال تلک کے تلخ سیاسی مخالف گوپال کرشنا تھے جن کا تعلق کانگریس سے تھا۔ بال تلک اور گوپال کرشنا کم ہی کسی چیز پر اتفاق کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ تلک کے ہمنوا تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہندوستان میں قانونی کونسل بنی تو صنعتکار رتن جی ٹاٹا نے ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ سولہ میں سے پندرہ ہندوستان ممبران کے ساتھ تھے۔ موہن داس گاندھی کے لئے یہ ٹیکس “معاشی ناانصافی” تھے۔ ہندوستان کے سرمایہ دار، صنعتکار، سیاستدان اور فریڈم فائٹر ایک ہی پیج پر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی انڈین انڈسٹریل کانفرنس 1905 میں ہوئی۔ اس میں ہندوستان بھر سے صنعتکاروں نے شرکت کی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بنائی ہوئی مصنوعات ہی مقامی منڈی میں بکیں۔
اور یہ مطالبہ گاندھی کی سوادیشی تحریک سے مطابقت رکھتا تھا، جو ہندوستانی خودانحصاری کی تحریک تھی۔ کانگریس کی سوادیشی تحریک ان صنعتکاروں کے لئے بہت پرکشش تھی۔ احمدآباد میں ٹیکسٹائیل شروع کرنے والے چھوٹالال نے دوسروں کے ساتھ ملکر “سودادیشی ادھیام وردک منڈلی” (مقامی صنعت کو فروغ دینے کی تنظیم) کے نام سے تنظیم بنائی۔ جمشیدجی ٹاٹا نے اپنی مل کا نام سوادیشی مِل رکھا۔ احمد آباد کی تاجر تنظیمیں اس تحریک کی پرجوش حامی تھیں۔ 1907 کے سالانہ اجلاس میں بومبے مل اونرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین کا کہنا تھا، “یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ سوادیشی تحریک کامیاب ہو رہی ہے۔ عوام مقامی صنعت کی طرف راغب ہو رہے ہیں”۔
اس سے چند سال بعد گاندھی نے چرخے کو برٹش مخالف تحریک کے علامت بنا دیا۔ عوامی مقامات پر چرخہ کاتتے گاندھی برٹش امپریل ازم کے خلاف استعارہ بن گئے۔ ایک طرف ہندووٗں کا زعفرانی، دوسری طرف مسلمانوں کا سبز اور بیچ میں کپاس کاتنے کے لئے چرخہ، جو امپریل ازم کے خلاف علامت تھا۔ یہ جھنڈا 1931 میں کانگریس پارٹی نے اپنا لیا۔ یہ چرخہ بعد میں بھارتی جھنڈے کا حصہ بن گیا، جو آزادی کی تحریک میں کپاس کی مرکزیت کا استعارہ بھی تھا۔ (چرخے کے طرح اس جھنڈے کی تمام علامات کو الگ معنی بعد میں دئے گئے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹاٹا اور ٹھاکردا جیسے صنعتکاروں کا مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستان میں لمبے ریشے والی کپاس پیدا کرنے کے لئے کیا کیا جائے جو ہندوستان صنعت کو فائدہ دے گی۔ ممبئی مل اونرز ایسوسی ایشن نے برٹش راج سے میں مطالبہ کیا کہ وہ لمبے ریشے والے کپاس اگانے کے طریقے وضع کرے اور اس پر سپورٹ دے تا کہ ہندوستانی صنعت میں انقلاب لایا جا سکے۔ سرمایہ داروں کی طرف سے اگلا کیا گیا مطالبہ ملاوٹ کے خلاف سخت قوانین کا اجرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کسی بھی اور جگہ کے مقابلے میں کپاس اور نیشنلزم کا آپس کا الجھاوٗ ہندوستان میں زیادہ تھا۔ ٹیکسٹائل صنعتکار تحریکِ آزادی میں پیش پیش تھے۔ گاندھی کا رومانس صدیوں پرانی ہاتھ سے کام کرنے والی ہنرمندی کی روایت سے تھا۔ ہندوستانی صنعتکاروں کی کالونیل دور ختم کرنے کی خواہش زیادہ عملی تھی۔ ان کا گاندھی سے اس بات پر تو اتفاق تھا کہ کاٹن کی عالمی انڈسٹری انیسویں صدی میں ہندوستان کے لئے تباہ کن رہی لیکن مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات گاندھی سے بالکل متضاد تھے۔ ان کی ماضی میں واپسی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آزادی کا مطالبہ کرنے والے برٹش کالونیل کامیابی کو ہندوستان میں دہرانے کے خواہشمند تھے۔ جس طرح چرخے کا پہیہ ایک ہی سمت میں چلتا ہے اور دھاگے کو کاتتا جاتا ہے، ویسے ہی وقت کا پہیہ بھی ایک ہی سمت کو جاتا ہے۔ ماضی واپس نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امپریل نظام کے خلاف عالمی جدوجہد کامیاب رہی۔ کپاس کی صنعت کا اس میں کردار رہا تھا۔ مصر میں محلہ الکبریٰ سے چین تک۔ ٹیکسٹائل ورکر اور کارخانے کے مالکان ان تحریکوں میں شریک تھے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے آغاز تک کالونیل ازم دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
اور اس کے رخصت ہو جانے کے بعد زیادہ وقت نہیں لگا جب یورپی کپاس کی سلطنت بھی اس کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔ اب ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایشیا کی طرف واپسی کا وقت تھا۔
ساتھ لگی تصویر انڈین نیشنل کانگریس کے سواراج جھںڈے کی، جسے 1931 میں اختیار کیا گیا۔