امریکی خانہ جنگی جاری تھی جس نے کپاس کا بحران پیدا کر دیا تھا۔ امریکہ اور لیورپول سے ہزاروں میل دور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کی جا رہی تھی۔ اس میں ہندوستانی تاجر اور کاشتکار، برطانوی کالونیل بیوروکریٹ اور مانچسٹر کے صنعتکار شامل تھے۔ ہندوستان میں 1820 کی دہائی میں کپاس کی قابلِ اعتبار سپلائی کے لئے کئے گئے پراجیکٹ ناکام رہے تھے جس کے بعد اس کی کوشش تر کر دی گئی تھی لیکن فورٹ سمٹر پر بمباری نے اس کو تبدیل کر دیا تھا۔
اب ہندوستان کا وقت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگپور میں جولائی 1861 میں لکھی تحریر سے، “کپاس اب گفتگو میں انے والا سب سے پہلا موضوع ہے۔ انگریزی پریس میں سینکڑوں مضامین اس بارے میں چھپ رہے ہیں۔ مانچسٹر کے صنعتکاروں نے کپاس کے بیج ممبئی بھجوائے تا کہ یہ کاشتکاروں میں تقسیم کئے جائیں۔ کاٹن جِن اور کاٹن پریس بھجوائے گئے۔
لیکن ایک اور مسئلہ تھا اور وہ ہندوستان کا انفراسٹرکچر تھا۔ مشینری پہلے جس بندرگاہ پر پہنچی، وہاں سے کپاس اگانے والے علاقوں تک سڑک نہیں تھی جس پر اسے پہنچایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے برطانوی کپاس کے صنعتکاروں کی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا۔ مانچسٹر چیمبر آف کامرس کے ممبر ہنری ایشورتھ کے الفاظ، “ہمیں ہندوستان میں ترقیاتی کام کرنا ہوں گے۔ یہ ہماری ملکیت ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے اگر اس سے ہم فائدہ نہ اٹھا سکیں”۔ نئی آنے والی برطانوی حکومت اس سے متفق تھی کہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے لئے سرمایہ کاری کی جائے۔ ایک اور تبدیلی قوانین میں لائی گئی تھی۔ ملاوٹ کو جرم قرار دے دیا گیا تھا۔ اچھی کوالٹی کی کپاس کے لئے یہ اہم تھا۔ جائیداد کی ملکیت کے قوانین لائے گئے تھے۔ جھگڑے والی زمینیں پیداواری نہیں ہوتی تھیں۔
کسی سے ایڈوانس لے کر معاہدے سے مکر جانے پر سخت قوانین بنے جس میں قیدبامشقت بھی تھی۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ اس سے قرض دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور قرض کی وجہ سے کاشتکار فصل زیادہ اور بہتر معیار کی اگا سکتا تھا۔ 1863 میں نئے قانون میں کپاس میں ملاوٹ پر قید بامشقت کی سزا کا قانون بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ فزیکل انفراسٹرکچر پراجیکٹ تھے۔ سب سے اہم ریلوے پٹری بچھانے کا تھا۔ امریکی خانہ جنگی کے وقت برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں ایسے پراجیکٹس کے لئے اخراجات دگنے کر دئے گئے۔ ہندوستان سے ہونے والی کاٹن کی درآمد پر ڈیوٹی کو نصف کر دیا گیا۔
ہندوستان میں ہونے والی یہ بڑی تبدیلیاں تھیں۔ لیکن برطانوی صنعتکار مطمئن نہیں تھے۔ ان کا تقاضا مزید کا تھا۔
اس معاملے کو برطانوی پارلیمان میں لے جایا گیا۔ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن برٹش انڈیا راج بہت بڑے پیمانے پر ترقیاتی پراجیکٹ شروع کرنے سے گریزاں تھا۔ اس نے حال ہی میں 1857 کی بڑی مقامی شورش کو دبایا تھا۔ صنعتکاروں کے برعکس وہ جانتے تھے کہ بڑی تبدیلیوں کا مطلب بڑے خطرات بھی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک شے تھی، جس نے ہندوستان میں کاٹن کی پیداوار کا کلچر بنانے میں سب سے زیادہ مدد کی۔ یہ کپاس کے عالمی مارکیٹ میں دام تھے۔ کپاس کی قیمت بڑھ رہی تھی اور یہ مقامی کاشتکاروں کے لئے پرکشش فصل بن رہی تھی۔ امریکی خانہ جنگی کے پہلے دو سالوں میں ہندوستان سے کپاس کی ہونے والی برآمد چار گنا ہو چکی تھی۔ اتنی بڑی مقدار میں زرعی برآمدات اس خطے کے لئے بے مثال تھیں۔ 1862 میں برطانوی کپاس کی درآمدات کا 75 فیصد ہندوستان سے آیا تھا جو اس سے دو سال قبل 16 فیصد تھا۔ فرانس کی درآمدات کا 70 فیصد ہندوستان سے آیا تھا جو اس سے پانچ سال قبل ایک فیصد تھا۔
سب سے بڑا حصہ مغربی انڈین دیہات کا تھا، خاص طور پر برار کے صوبے کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممبئی سے بحری جہاز ساری دنیا میں کپاس لے کر جا رہے تھے لیکن یورپی صنعتکاروں اور تاجروں کو ایک شکایت تھی۔ اور یہ شکایت کوالٹی کی تھی۔ مال صاف نہیں تھا، کپاس کا ریشہ چھوٹا تھا اور اس کے لئے مشینوں کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا تھا۔
ساتھ لگی تصویر امریکی خانہ جنگی کے دور میں بنایا گیا کارٹون جو پنج میں شائع ہوا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...