دو سو سال پہلے ایک برطانوی تاجر نے تجربہ کیا جس کو انسانی تاریخ کا اہم ترین تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ سیموئل گریگ نے 1784 میں ایک بہتی ندی کے کنارے ایک چھوٹی سی فیکٹری لگائی جس میں چند سپننگ مشینیں لیں جو نئی طرح کی تھیں۔ یہ واٹر فریم تھے۔ کچھ یتیم اور غریب بچے لئے، آس پاس کی دیہات سے مزدور اور غرب الہند سے آنے والی کپاس۔ صدیوں سے اس کو چلانے کے لئے جو طاقت استعمال ہو رہی تھی، وہ انسان تھے۔ گریگ نے بہتے پانی سے کاتنے والی مشینوں کو حرکت دی۔ گریگ کی یہ چھوٹی سی فیکٹری تھی لیکن دنیا میں پہلی بار ایسا ہو رہا تھا۔ پہلی بار مشین ایک ایسی انرجی سے حرکت کر رہی تھی جو انسانی زورِ بازو نہیں تھا۔ کئی دہائیوں کے تجربات کے بعد انسان کی سب سے پرانی صنعت کی پیداواری صلاحیت یکایک بہت بڑھ گئی تھی۔ اور اس نے مشین اور انسان کی حرکت اور قسمت کا ایک نیا رقص شروع کیا۔
گریگ مانچسٹر کے رہائشی تھے۔ ان کی مشینیں اسی علاقے میں ایجاد ہوئی تھیں۔ اٹھارہویں صدی کی ٹیکنالوجی کے لئے یہ علاقہ ویسا تھا جیسے بیسویں صدی کے آخر میں سیلیکون ویلی۔ پینتیس میل قطر کے علاقے میں فیکٹریاں لگ رہی تھیں۔ قصبے شہروں میں بدل رہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے ہزاروں لوگ فیکٹریوں میں جا رہے تھے۔
گریگ کی یہ نئی فیکٹری مقامی واقعہ تھا۔ لیکن اس کے آئیڈیا، میٹیریل اور مارکیٹ دنیا بھر سے پچھلی تین صدیوں سے اکتھی ہوئی تھیں۔
گریگ کی فیکٹری دنیا بھر کے نیٹورک کا حصہ تھی اور اس کے وجہ سے دنیا میں جو تبدیلیاں آنے تھیں، گریگ اسے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
اس نے موقع دیا تھا کہ ایشیا سے کپڑا اور ٹیکنالوجی آنے کے بجائے اس یورپی جزیرے میں پیدا ہو۔
گریگ اور ان کے ساتھیوں نے صنعتی انقلاب کے عروج کے وقت 1780 سے 1815 کے درمیان ایشیائی، لاطینی امریکہ اور افریقی پیداوار کے مقابلے میں مقدار کم پیدا کی لیکن ان کے کارخانے اس صنعت کا مستقبل تھا۔ پانی کے زور پر چلنے والی مشین اس کے بعد بھاپ سے چلنے لگیں۔ نت نئی جدتیں ہونے لگیں۔ اجرت پر کام کرتے مزدور انہیں حرکت میں رکھتے۔ زیادہ پیداواری صلاحیت کا مطلب زیادہ منافع اور زیادہ سرمایہ تھا۔ زیادہ سرمایے کا مطلب جدتوں پر زیادہ خرچ تھا۔ اور یہ کپاس کی سلطنت کا مرکزی ستون بن گیا۔ انگلینڈ عالمی معیشت پر غالب آ گیا۔ انسانیت کی سب سے اہم صنعت کو اس نے اپنا بنا لیا تھا۔ یہاں سے صنعتی کیپٹلزم کا آغاز ہوا اور اس مقامی شعلے سے تمام دنیا میں پھیلا۔
اس نے ویسی دنیا بنائی جس کو ہم آج جانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیموئل گریگ اس کہانی میں اہم ہیں۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے آنے والے وقت کی تشکیل کی۔ لیکن ہر کامیاب انقلابی کی طرح، وہ بھی وقت کے بہتے دھارے کا حصہ تھے جن کا انحصار اپنے ماضی پر تھا۔ برطانوی تاجر، ریاست، جاگیردار اس سے پہلے دنیا میں افرادی قوت، آبادیاں، منڈیاں اور زرخیز زمین حاصل کر چکے تھے۔ یہ صرف بہتے پانی کی طاقت نہیں تھی۔
گریگ اور ان کے ساتھیوں میں تجربے کی ہمت اور ٹیکنیکل صلاحیت بھی تھی۔ منافع کمانے کی خواہش بھی۔ جزائر غرب الہند میں ان کے پاس غلام بھی تھے جہاں سے کپاس آتی تھی۔ اور وہ منڈیاں بھی دستیاب تھیں جنہیں برطانوی تاجروں نے ہندوستانی پیداوار کی برآمد کے لئے کھولا تھا۔
اٹلانٹک ٹریڈ سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی تھا۔ طویل فاصلے تک کی تجارت کی تنظیم بھی۔ سرمایے کو دور دراز تک حرکت دینے کے مکینزم بھی۔ فائننشل آلات بھی۔ لیبر کاسٹ اکاونٹننگ جیسی تکنیکی جدتیں بھی۔ طاقتور امپریل سٹیٹ بھی۔ یہ سب وار کیپٹلزم نے بنایا تھا۔
مانچسٹر کی بہتی ندی سے طاقت اخذ کرنے کی صلاحیت نے صنعتی کیپٹلزم کا راستہ کھولا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ وقت کے بہتے دھارے سے اخذ کردہ طاقت بھی تھی۔ ساتھ لگی تصویر Quarry Bank Mill کی ہے جو 2016 میں لی تھی۔ صنعتی انقلاب کے دور کے اس ابتدائی کارخانے کو سیاحوں کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...