سترہویں صدی کے آغاز پر یورپی ملبوسات کا بڑا حصہ لنن کا یا اونی تھا۔ اگلی دو صدیوں میں یہ تبدیل ہو گیا۔ ابتدا میں یہ تبدیلی سست رفتار تھی لیکن اس کی رفتار بڑھتی گئی۔ اور ان ملبوسات کے ساتھ ساتھ دنیا کا نقشہ اور تنظیم بھی۔ اور یہ دونوں تبدیلیاں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھیں۔
اس کا پہلا اہم حصہ جہازرانی تھی۔ یورپی تجارتی نیٹورک وسیع ہوتے گئے۔ اور اس کے پیچھے صرف ایجادات یا اچھی ٹیکنالوجی کا ہی ہاتھ نہیں تھا۔
یورپی سرمایہ دار اور حکمرانوں نے یہ عالمی نیٹورک کئی طریقے سے بنائے۔ یہ تجارت کا جال تھا جس میں اسلحہ بھی تھا، افواج بھی۔ اور مالیاتی نظام کی جدتیں بھی۔ میرین انشورنس۔ بل آف لیڈنگ جیسے مالیاتی آلات تھے۔ ان کی مدد سے سرمایہ اور مال دور دراز بھیجی جا سکتی تھیں۔ قانونی نظام کی ڈویلپمنٹ تھی جس سے عالمی سرمایہ کاری محفوظ طریقے سے کی جا سکتی تھی۔ دور دراز کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے ساتھ بنائے گئے اتحاد تھے۔ ان سے دور کے کاشتکاروں اور ہنرمندوں تک رسائی ملی۔ اس میں جبر بھی تھا۔ چھینی گئی زمینیں بھی تھیں۔ افریقہ میں اپنے علاقوں سے نکالے گئے لوگ بھی تھے۔
صنعتی انقلاب کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔
عالمی مالیاتی کنکشن بنے، جس سے انسانی معاشروں پر ڈرامائی نتائج ہوئے۔ ریاست اور سرمایہ دار کی طاقت کی مدد سے کپاس کی یہ الگ دنیائیں اکٹھی ہو کر یورپی کاٹن کی سلطنت بن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسٹوفر کولمبس کا 1492 میں امریکاز تک پہنچنا اس کا ایک اہم واقعہ تھا۔ ہرنان کورٹیس نے ایزٹک سلطنت پر 1518 میں حملہ کیا اور امریکہ کے بڑے حصے کو ہسپانیہ کے لئے حاصل کر لیا۔ سولہویں صدی کے وسط میں پرتگال نے ایسا کیا اور اس علاقے پر قبضہ کر لیا جو آج کا برازیل ہے۔ فرانس نے 1605 میں موجودہ کینیڈا کا کیوبک، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا مڈویسٹ اور جنوبی علاقہ قبضے میں لے لیا۔ فرنچ انتظامی یونٹ کو لوزیانا کا نام دیا گیا۔ کئی جزائر پر قبضہ کیا۔ برٹش نے یہاں سب سے پہلے 1607 میں پہلی آبادی بنائی جو جیمزٹاون تھا۔ یہ ورجینیا کی کالونی بنی اور مزید اضافہ ہونے لگا۔ زمین کے اس بڑے حصے پر قبضے نے دوسری چیزوں کے علاوہ بڑی مقدار میں کپاس اگانے کی زمین دے دی۔
کولمبس کے بعد تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ اس سے پانچ سال بعد ہوا جب واسکو ڈی گاما نے 1497 میں کالی کٹ کی بندرگاہ کا سفر کیا۔ یورپ سے انڈیا کا سمندری راستہ بن گیا۔ اب درمیان میں مڈل مین کے بغیر یورپ کو ہندوستانی جولاہوں تک رسائی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی کپڑے کے لئے عرب کے صحرا میں سفر کرتے اونٹوں کے قافلوں کی ضرورت ختم ہو گئی۔ ڈی گاما نے مقامی حکمرانوں سے 1498 میں تجارت کی اجازت لے لی۔ سولہویں صدی کی ابتدا تک پرتگالی ہندوستان کے مغربی ساحل پر تجارتی چوکیاں بنا چکے تھے۔ ان میں سب سے دیر تک گوا قائم رہی۔ سولہویں صدی کے اختتام پر ولندیزی اور برطانوی ایشیا کی تجارت پر پرتگال کی بالادستی کو چیلنج کرنے لگے۔ اس کے لئے جوائنٹ سٹاک کمپنیوں کو چارٹر ملا کہ وہ مصالحوں کے منافع بخش کاروبار میں اپنا حصہ لے سکیں۔ اینگو ڈچ جنگوں کا سلسلہ رہا جس کے بعد دونوں فریقین نے اتفاق کر لیا کہ وہ ایشیا میں اپنا حصہ تقسیم کر لیں گے۔ ہندوستان سے ٹیکسٹائل کی تجارت زیادہ تر برطانوی ہاتھ میں آئی۔
جنوبی ایشیا میں یورپی تاجروں کی آمد کے بعد بڑی مقدار میں کپڑا برآمد ہونے لگا۔ پرتگالی تاجروں نے گجرات سے عرب اور مشرقی افریقہ کا تجارتی راستہ بھی حاصل کر لیا۔
برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی 1600 میں قائم ہوئی۔ ڈچ ویرنگڈے اوسٹ انڈیش کومپانی 1602 میں جبکہ ڈنمارک کی ڈانسک اوسٹنڈسک کومپانی 1616 میں۔ سترہویں صدی کی ابتدا تک ڈچ اور برٹش گجراتی ٹیکسٹائل کے کاروبار کو پرتگالیوں سے لینے میں کامیاب ہو گئے تھے (اور نہیں، یہ پرامن نہیں تھا)۔
فرانس آخری یورپی طاقت تھی جس نے تجارت شروع کی۔ 1664 میں فرنچ تاجروں نے کومپان ڈی انڈی فرانسائی بنائی۔ جس نے پہلی تجارت رنگدار کپڑے کی فرانس میں درآمد سے کی۔
یہ یورپی کمپنیاں ہندوستان سے کاٹن ٹیکسٹائل خریدتی تھیں۔ ان کو جنوبی مشرقی ایشیا میں بیچ کر مصالحہ جات خریدتی تھیں اور یورپ میں بھی لاتی تھیں۔ یہاں سے یہ افریقہ بھیجے جاتے تھے تا کہ غلام خریدنے کے دام ادا کئے جا سکیں۔ ان کو امریکاز میں بھیجا جاتا تھا جہاں پر یہ کھیت میں کام کر سکیں۔ یہ تین براعظموں پر محیط ٹریڈنگ سسٹم تھا۔
ایشیا میں یورپی پھیلاوٗ کے پیچھے کاٹن کا مرکزی کردار تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1621 تک پچاس ہزار کاٹن کی مصنوعات برطانیہ درآمد کی تھیں۔ چالس سال بعد یہ عدد پانچ گنا ہو چکا تھا۔ کاٹن کا کپڑا کمپنی کا سب سے اہم تجارتی مال تھا۔ 1766 میں کپڑا ایسٹ انڈیا کمپنی کی انڈیا سے کی جانے والی ایکسپورٹ کا تین چوتھائی حصہ تھا۔ پردے، چادریں، پوشش اور میزپوش، ہندوستانی کاریگروں کا مال برطانیہ پہنچ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان سترہویں صدی میں دنیا کا سب سے خوشحال خطہ تھا۔ یورپی تاجروں کے بنائے گئے تجارتی نیٹورک نے یہاں بنی مصنوعات دنیا بھر میں متعارف کروا دی تھیں۔ بڑی مارکیٹ پیدا کر دی تھی۔ اور یہی ہندوستان کا سب سے کمزور پہلو تھا۔ نہ ہی اس کو منڈیوں پر کنٹرول تھا، نہ تجارتی روابط پر۔ نئے عالمی اکنامک آرڈر نے اس کو امیر کر دیا تھا لیکن اپنی امارت کے لئے اس کا انحصار ان تاجروں پر تھا۔
ساتھ لگی تصور سترہویں صدی کے تاریخی مرچنٹ بحری جہاز کی، جو ڈچ کمپنی کے پاس تھا۔