ہمارے علم کے مطابق کپاس کی domestication, spinning, weaving دنیا میں کم از کم تین علاقوں (جنوبی ایشیا، وسطی امریکہ اور مشرقی افریقہ) پر آزادانہ ڈویلپ ہوئی اور باقی دنیا میں پھیلی۔ ہجرت اور تجارت کے راستوں سے یہ میسوامریکہ سے شمال کی طرف گئی۔ مشرقی افریقہ سے مغربی افریقہ کی طرف۔ برِصغیر کا اس میں کلیدی کردار رہا۔ جہاں سے اس کی مہارت ہر طرف گئی اور ایشیا عالمی کاٹن صنعت کا مرکز بن گیا اور انیسویں صدی کے وسط تک رہا۔ پھر یہ مرکز یورپ کی طرف چلا گیا اور بیسویں صدی کے آخر تک یہ واپس ایشیا آ چکا تھا۔
ہندوستان سے کپاس کا سفر مغرب کی طرف ہوا۔ ترکستان کے راستے مشرقِ وسطی میں اور پھر بحیرہ روم تک۔ یہ فارس، میسوپوٹیمیا اور فلسطین کے علاقوں تک دو ہزار سال پہلے پہنچ چکی تھی۔ نینوا، اسیریا اور اناطولیہ تک اس کی کاشت ہونے لگی تھی۔ افریقہ کی طرح ہی اسلام کی آمد نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی اس کے اگانے، کاتنے اور بننے کی مہارت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نویں اور دسویں صدی کے ایران میں “کاٹن بُوم” آیا۔ یہاں کے شہری مراکز تک بھیجی جاتی۔ سب سے زیادہ بغداد کو۔ مارکوپولو کو اپنے سفر میں آرمینیا سے پریشیا تک ہر جگہ کاٹن اور کاٹن کے کپڑے نظر آئے۔
ہندوستان سے یہ مشرق کی سمت میں بھی گیا اور خاص طور پر چین میں۔ چین آج دنیا کی کاٹن انڈسٹری کا مرکز ہے لیکن یہ پودا یہاں کا مقامی نہیں۔ چینی زبان میں کپاس اور اس کے ریشے کے لئے الفاظ سنسکرت سے لئے گئے ہیں۔ 200 قبلِ مسیح میں یہ چین پہنچ چکا تھا۔ لیکن اگلے ایک ہزار سال تک یہ صرف جنوب مغربی سرحدی علاقے تک محدود رہا۔
یوآن خاندان کے دور (1271 سے 1368 عیسوی) میں یہ فن چین میں پھیلا۔ اور اس نے رامی کی جگہ لے لی جو چین میں ریشم کے علاوہ روایتی ریشہ تھا۔ 1433 تک چینی عوام اپنا ٹیکس کاٹن کی صورت میں ادا کر سکتے تھے۔ اس ٹیکس کے ذریعے حکومت فوجیوں اور سرکاری اہلکاری کو لباس مہیا کرتی تھی۔
یوآن خاندان کے بعد آنے والا منگ خاندان توسیع پسند تھا۔ اس دور میں چینی فتوحات میں کاٹن کی پیداوار نئی جگہوں پر پہنچی۔ جب اس کی حکومت 1644 میں ختم ہوئی تو چین میں سالانہ دو کروڑ گانٹھوں کی پیداوار ہو چکی تھی۔ شمال کے کاشتکار دریائے یانگ زی کے قریب رہنے والوں کو خام کپاس بیچتے تھے۔ یہاں پر ٹیکسٹائل تیار ہوتی تھیں جس میں سے کچھ واپس شمال میں فروخت کی جاتی تھیں۔ چینی سلطنت میں ہونے والی تجارت کا ایک چوتھائی کاٹن تھا۔ سترہویں صدی تک، تقریباً تمام چینی خواتین، حضرات اور بچے کاٹن کے ملبوسات پہنا کرتے تھے۔ جب اٹھارہویں صدی میں چینی آبادی دگنی ہوئی (چالیس کروڑ تک پہنچ گئی) تو اس کی کاٹن کی صنعت ہندوستان کے بعد دوسری بڑی تھی۔ 1750 میں سالانہ پیداوار ستر کروڑ کلوگرام تک پہنچ چکی تھی جو امریکہ کی پیداوار کے برابر تھی۔
انڈیا سے کپاس کی ٹیکنالوجی جنوب مشرقی ایشیا تک گئی۔ پیداوار کی مہارت میں ترقی کے ساتھ کاٹن کا کپڑا خوراک کے بعد سب سے قدر والی شے بن چکا تھا۔ بدھ راہب اسے تیسری سے پانچویں صدی کے درمیان جاوا لے گئے۔ اس سے بہت بعد 1525 سے 1550 کے درمیان کپاس کی کاشت جاپان پہنچی۔ سترہویں صدی تک یہ جاپان کی اہم فصل بن چکی تھی۔ چھوٹے کسان ٹیکس ادا کرنے کے لئے اضافی آمدنی کے لئے اسے چاول کے ساتھ اگایا کرتے تھے۔ جاپان میں اس کی آمد کے ساتھ ہندوستان کا کاٹن کلچر تقریباً تمام ایشیا تک پھیل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال سے افریقی، امریکی اور ایشیائی کسانوں اور جولاہوں کا کام جاری تھا۔ کپاس اور کپڑے کی پیداوار چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھی۔ یہ گھروں میں ہوا کرتا تھا۔ کچھ کاشتکار اپنی کپاس منڈی میں بیچتے تھے۔ کئی بار دور تک تجارت بھی ہوتی تھی اور کئی حکمران اس کا کچھ حصہ خراج بھی وصول کرتے تھے لیکن کوئی بھی کاشتکار صرف کپاس کی فصل پر انحصار نہیں کرتا تھا۔ اور دنیا کے کئی علاقوں میں بیسویں صدی تک ایسا رہا۔
اسے دوسری فصلوں کے ساتھ اگایا جاتا تھا۔ مایا تہذیب میں اسے دال اور مکئی کے ساتھ کاشت کیا جاتا تھا۔ مغربی افریقہ میں اسے شورگم کی فصل کے درمیان میں کاشت کیا جاتا تھا۔ گجرات میں اس کی جھاڑیوں کو چاول کی قطاروں کے بیچ میں لگا دیتے تھے۔ اٹھارہویں صدی سے پہلے کسی قطعہ اراضی پر صرف کپاس کی فصل اگانا شاذ تھا۔ اور جہاں پر ایسا مونوکلچر ابھرا، ساتھ ہی بھوک بھی کیونکہ اسے زمین اور مزدوری کی ضرورت تھی۔ اسے کھایا نہیں جا سکتا تھا۔ ایسی صورت میں خوراک کی دستیابی کا انحصار منڈی میں اس کی قیمت پر ہوتا تھا۔
کپاس کی کاشت کی طرح اس کی صنعت بھی گھر میں تھی اور انیسویں صدی تک بڑی حد تک ایسا رہا۔ایزٹک، افریقہ، چین، ایشیا اور عثمانی سلطنت میں یہ فیملی انڈسٹری تھی۔ گھر میں خاندان اپنے لئے کپڑا بناتا تھا۔ کچھ کو منڈی میں بیچ دیا جاتا تھا۔
موسم کے ساتھ کھیت پر کام کرنے کے تقاضے پر فرق پڑتا تھا۔ کپاس کو توڑ کر ذخیرہ کر لیا جاتا اور جس وقت کام زیادہ نہ ہوتا تو اس پر کام کیا جاتا۔ گھریلو کام خواتین کے پاس تھا اور چرخہ چلانے سے لباس تیار کرنا بھی عام طور پر ان کے پاس تھا۔
ہر معاشرے میں محنت میں صنفی تقسیم رہی ہے۔ تقریباً تمام کلچرز میں خواتین کے پاس کپڑا تیار کرنے کا کام رہا ہے۔ ماسوائے چند تہذیبوں کے، کاتنے کا کام خواتین کا رہا۔ کاتنے میں تسلسل کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ بچوں کی نگہداشت اور کھانے پکانے کے ساتھ گھریلو امور میں وقت ملنے پر کاتنے کا کام کیا جا سکتا تھا۔ یہ تعلق اس قدر گہرا تھا کہ کئی جگہ پر خواتین کو ان کے چرخے سمیت دفنایا جاتا تھا۔ جولاہے کا کام ہندوستان سمیت کچھ کلچرز میں مردوں کے پاس رہا جبکہ چین اور شمالی افریقہ میں یہ بھی خواتین کے پاس۔ محنت کی صنفی تقسیم بعد میں فیکٹری کے سسٹم میں بھی نمودار ہوئی۔
مشینی انقلاب سے قبل اٹھارہویں صدی میں ایشیائی خاتون کو ایک پاونڈ کاٹن کاتنے کے لئے ایک ماہ لگتا تھا اور دس گز کپڑا بنانے میں ایک ماہ مزید۔ چونکہ یہ “مفت” کی مزدوری تھی تو پیداواری صلاحیت میں اضافے پر زیادہ توجہ نہیں رہی۔ ایک اور پہلو یہ تھا کہ جہاں پر حکمران ٹیکس زیادہ لگاتے تھے، وہاں اپنی محنت کو منڈی میں بیچنے پر توجہ نہیں تھی۔ یہ گھریلو ضرورت تک ہی رہتی تھی۔
ایک اور پہلو خام مال کی سپلائی کی قلت تھی۔ خام کاٹن دور دراز نہیں بھیجی جا سکتی تھی۔ ذرائع آمدورفت محدود تھے۔ انیسویں صدی کی آمد تک کپاس کے بہت بڑے حصے پر اس کے اگنے کی جگہ سے چند میل کے اندر اندر ہی کام ہوتا تھا۔
فصل کی بوائی سے کپڑا بننے تک پہنچنا بڑی مشقت والا کام تھا، اس لئے اس کی قدر بہت تھی۔ ایزٹک، چین، افریقہ میں ٹیکس کپڑے کی صورت میں لگایا جاتا تھا۔ چین، افریقہ، جنوبی ایشیا اور میسوپوٹیمیا میں کپڑا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ یہ دور دراز لے جایا بھی جا سکتا تھا، خراب نہیں ہوتا تھا۔ کپڑے کے بدلے خوراک اور دیگر مصنوعات خریدی جاتی تھیں۔
ہندوستان اس کے مرکز میں رہا۔ 1647 میں عثمانی اہلکار نے شکایت کی، “ہندوستانی مصنوعات کے بدلے گجراتی تاجر ہمارا خزانہ خالی کر دیتے ہیں۔ دولت ہندوستان میں اکٹھی ہو رہی ہے”۔
سولہویں صدی میں سالانہ پندرہ بھرے ہوئے بحری جہاز مشرق میں ملاکا تک پہنچتے تھے۔ 1503 میں اطالوی تاجر ڈی وارتما نے گجراتی بندرگاہ کامبے کے بارے میں لکھا ہے، “اس شہر سے تمام فارس، تاتار، ترکی، شام، ایتھوپیا اور بربر کو مال پہنچتا ہے”۔ سنسکرت میں کاٹن کی مصنوعات کے لئے استعمال ہونے والا لفظ کڑپاسی کئی زبانوں میں داخل ہوا۔ عبرانی، یونانی، لاطینی، فارسی، عربی، آرمینین، مالے، ایغور، منگولین اور چینی زبان میں کپڑے کے لئے اس سے ملتے جلتے الفاظ ہیں۔
ابتدا میں گھریلو صنعت مانگ بڑھنے پر عالمی صنعت میں گیارہویں صدی میں تبدیل ہوئی تھی اور یہ پہلی جنس تھی جس کے عالمی صارفین تھے۔ بڑھتی مانگ نے پیشہ ور جولاہے ہندوستان میں پیدا کئے جن کا کام ہی دور تک کی تجارت اور حکمرانوں کو خراج دینے کے لئے مال پیدا کرنا تھا۔ ڈھاکہ میں کپڑے کی ورکشاپ بنیں جہاں پر سخت نگرانی میں مغل خاندان کے لئے کپڑا بنوایا جاتا تھا۔آندھرا پردیش میں پندرہویں صدی میں پہلی ایسی ورکشاپ تھی جس میں ایک سے زیادہ کھڈیاں تھیں۔ بنگال ململ کے لئے مشہور تھا۔ کورومینڈل چھینٹ اور لٹھے کے لئے۔ سورت ہر قسم کے سستے کپڑے کے لئے۔ ذات پات کے ہندوستانی نظام میں جولاہوں کو اونچا مرتبہ ملنے لگا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...