لباس کی تاریخ مرتب کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ وقت کے ساتھ طویل عرصہ باقی نہیں رہتا۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب ایک لاکھ سال قبل انسانوں نے افریقہ کے میدانوں سے سرد موسم کی طرف سفر کیا تو موسم سے بچنے کے لئے لباس کی ضرورت تھی۔ آرکیولوجیکل ریکارڈ اس بارے میں اچھا نہیں لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اس وقت جانوروں کی کھال اور فر تن پوشی کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔
اس کا بھی ایویڈنس موجود ہے کہ تیس ہزار سال پہلے السی سے سوت کاتا اور بنا جاتا تھا۔ بارہ ہزار سال قبل جب بستیاں بسنی شروع ہوئیں تو کپڑے کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ سورج اور سردی سے بچنے کے لئے نئی اقسام کے ریشوں کے ساتھ تجربات کئے جانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پودے سے کپڑے تک کی تبدیلی کی ایجادات دنیا کے کئی مقامات پر آزادانہ طریقوں سے ہوئی ہیں۔ یورپ میں بارہ ہزار سال پہلے نیولیتھک دور میں مختلف اقسام کے گھاس کی بُنائی کی جاتا تھا۔ اس سے آٹھ ہزار سال بعد کانسی کے دور میں جانوروں سے اون لی جانے لگی تھی۔ مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ میں سات ہزار سال تک السی کا سوت اور کئی اقسام کے اون استعمال کئے گئے۔ اس دوران چین میں رامی کا درخت اور ریشم کا استعمال ہوا۔ جس طرح معاشرے بڑے ہوتے گئے، کپڑا کسی کے سماجی مرتبے کا تعین کرنے کا اہم نشان بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لنن، اون، رامی اور ریشم کی دنیا میں، کپاس کی اہمیت رفتہ رفتہ بڑھنے لگی۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے، ہندوستان میں پانچ ہزار سال پہلے یہ دریافت ہوا کہ اس سے دھاگہ بنایا جا سکتا ہے۔ لگ بھگ اسی وقت میں موجودہ پیرو کے ساحل پر بھی یہی کام کیا جانے لگا اور اس سے کچھ ہزار سال بعد مشرقی افریقہ کے رہائشیوں نے بھی اس کی تکنیک الگ سے ایجاد کر لیں۔ یہ دریافت ہو جانے کے بعد سب علاقوں میں کپاس کا ریشہ لباس کا غالب ذریعہ بن گیا۔ اس کی خاصیتیں السی یا رامی یا دیگر ریشوں سے برتر تھیں۔ پائیدار، ہلکا، آسانی سے رنگا جانے والا اور آسانی سے دھویا جانے والا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نباتات کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کپاس کا پودا زمین پر ایک سے دو کروڑ سال پرانا ہے۔ جینیاتی لحاظ سے اس کی چار الگ انواع بن چکی ہیں۔ میسوامریکہ کی جی ہرسٹم۔ جنوبی امریکہ کی جی بارباڈنس۔ افریقہ کی جی ہرباسیم۔ اور ایشیائی جی ابورٹیم۔ ان انواع سے آگے سینکڑوں اقسام کی ویری ایشن ہے۔ آج دنیا میں نوے فیصد جی ہرسٹم اگائی جاتی ہے جو امریکہ سے آئی ہے۔
انسان نے اس پودے کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ جھاڑی یا چھوٹے درخت جو چھوٹے بیجوں سے لدا ہوتا تھا اور ان بیجوں پر بال پھیلے ہوتے تھے۔ مصنوعی چناوٗ نے اسے تبدیل کر کے چھوٹا پودا بنا دیا جس کے بڑے بیجوں کے بال غیرمعمولی لمبائی کے تھے۔
کپاس اگانے والوں نے پودے کے ساتھ تجربات کئے اور اسے ایسی شے بنا لیا جو لباس کی بڑھتی ضروریات پورا کر سکتا تھا۔ اسے دور دراز لے جایا گیا، اس کے تنوع میں اضافہ ہوا۔ الگ علاقوں میں اسے کاشت کیا گیا۔ اور یہ وہ خاصیتیں تھیں جس نے انیسویں صدی میں کپاس کی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
ساتھ لگی تصویر آٹھویں صدی چینی خواتین کی جو چین میں ریشم کا کپڑا تیار کر رہی ہیں۔