جب آپ کپاس کے ایک پودے کو دیکھتے ہیں تو یہ عجوبہ نہیں لگتا۔ بڑا عام سا پودا ہے جو کئی شکلوں اور سائز میں ہے۔ کپاس کی عالمی سلطنت کی تخلیق سے قبل مختلف کلچر کپاس کے مختلف پودے اگاتے تھے۔ جنوبی امریکہ میں ایک چھوٹا جھاڑی نما پودا تھا جس پر زرد پھول آتے تھے، جس میں لمبا ریشہ تھا۔ ہندوستان میں اس کے پودے کا قد چھ فٹ ہوتا تھا جس میں جامنی یا زرد پھول ہوتے تھے اور ریشہ چھوٹا ہوتا تھا۔ افریقہ میں بھی اسی سے ملتی جلتی ایک اور نوع تھی۔ انیسویں صدی کے وسط تک کپاس کی سلطنت میں ایک ہی نوع چھا چکی تھی۔ یہ وسطی امریکہ میں اگنے والی جی ہروسٹم کی نوع تھی۔ یہ دو سے تین فٹ اونچا پودا تھا۔ اس کے پتے اندر سے بالوں والے تھے اور تین یا پانچ پتیوں والے۔ پھول کی پتیاں ملائم تھیں۔ مٹیالے سے رنگ کے بڑے پھول تھے۔ چار حصوں کے کیپسول نما جو سیب جتنے بڑے ہو جاتے تھے اور بڑی نفیس ریشمی کاٹن وول دیتے تھے جو تجارت میں ہاتھوں ہاتھ بکتی تیے۔
ہندوستانی جولاہے، امریکی غلام، یونانی تاجر، لنکاشائر کے ہنرمند۔۔ ان سب کا آپس میں اس مٹیالے پھول کی وجہ سے تعلق تھا۔ 1900 میں پوری دنیا کی ڈیڑھ فیصد آبادی اس سلطنت سے وابستہ تھے۔ کئی ملین مرد، خواتین اور بچے یا تو اسے اگاتے تھے یا اسے ٹرانسپورٹ کرتے تھے یا اس کے کارخانے میں کام کرتے تھے۔ اس کی الکیمیائی طاقتوں نے دولت پیدا کی، غلامی اور مفت کی محنت پیدا کی، ریاست اور منڈی، کالونیل ازم اور آزاد تجارتی، صنعتکاری اور قدیم صنعتوں کا انہدام۔ ریلوے اور سٹیم شپ۔ بہت کچھ اس پھول کے پیچھے ہوا ہے۔
لیورپول کاٹن ایکسچینج کا واقعہ الباما کے کاشتکار کو متاثر کرتا تھا۔ ڈھاکہ میں کھڈی پر کام کرنے والے کی قسمت السیشیا کی سپننگ مل سے جڑی تھی۔ مانچسٹر اور لیورپورل کے درمیان ریلوے لائن بوسٹن کے تاجر کی حکمت عملی اور واشنگٹن اور لندن کے محصول بدل دیتی تھی۔ عثمانی سلطنت کی زرعی اصلاحات غرب الہند کے غلاموں کی زندگی پر اثر ڈالتی تھیں۔ امریکہ میں آزاد کردہ غلاموں کی سرگرمیاں ہندوستان کے دیہاتیوں کو متاثر کرتی تھیں۔
کپاس کی تاریخ یہ یاددہانی بھی کرواتی ہے کہ معاشی نظام کی کوئی بھی حالت مستقل یا مستحکم نہیں ہے۔ ہر نیا وقت نئی غیرمستحکم حالت پیدا کرتا ہے، تضادات کو جنم دیتا ہے جس سے وسیع تر علاقائی، سماجی اور سیاسی تنظیمِ نو ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کپاس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کی تاریخ نامعلوم نہیں۔ لائبریریاں بھری ہوئی ہیں۔ اس سب کو اکٹھا ملا کر پڑھنا انسانی معاشی تاریخ کو واضح کرتا ہے۔
صرف کپاس کی ہی ایک جنس تک محدود رہنا اور اس کے قدموں کے نشان دیکھنا ہمیں موقع دیتا ہے کہ اس کے اگنے، ٹرانسپورٹ ہونے، فائننس ہونے، فیکٹری میں تیار ہونے، بکنے اور استعمال ہونے کے درمیان انسانوں کے روابط کیسے بنتے ہیں۔ کسی ایک واقعے یا علاقے کی تاریخ ہمیں محدود کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روئی کے پودے کی نظر سے انسان کا پانچ ہزار سال کا سفر ہے۔ اس ناقابلِ ذکر شے کی مدد سے ہم ایک بڑے اسرار کو سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ کہ جدید دنیا وجود میں کیسے آئی؟ اور اس کے لئے سب سے پہلے ایک چھوٹے سے دیہات میں چلتے ہیں جو موجودہ میکسیکو میں ہے جہاں کپاس کا پودا اگتا تھا۔ ایک ایسی دنیا میں، جو ہماری دنیا سے بالکل مختلف تھی۔
ساتھ لگی تصویر G Arboreum کے پودے کی۔ جامنی پھولوں والا یہ پودا پاکستان اور ہندوستان کے علاقے کی کپاس کی مقامی نوع تھی۔ کپاس کے انقلاب کے بعد اس کی کاشت بہت کم رہ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...