کچھ دیر ٹھہر کر ایسی زندگی کا تصور کریں جس میں کپاس نہ ہو۔ آپ صبح اٹھے ہیں تو آپ کا بستر یا تو جانور کی کھال سے یا بھوسے کا ہے۔ آپ اونی کپڑے پہنتے ہیں یا اگر امیر ہیں تو السی کا سوت (linen) یا ریشم۔ آپ کے کپڑے یا تو بہت مہنگے ہیں یا اگر یہ سب آپ نے خود کیا ہے تو بہت محنت والا کام ہے، اس لئے آپ انہیں دھوتے بھی کبھی کبھار ہیں۔ ان میں بو آتی ہے اور یہ چبھتے ہیں۔ ان میں رنگ نہیں۔ کیونکہ کاٹن کے برعکس، اون یا دوسرے قدرتی ریشوں کو رنگنا مشکل ہے۔ اور ہاں، آپ کے ہر طرف بھیڑیں ہیں۔ کپاس کی موجودہ پیداوار کا اونی متبادل حاصل کرنے کے لئے سات ارب بھیڑوں کی ضرورت ہے۔ ان سات ارب بھیڑوں کو چرنے کے لئے پونے دو ارب ایکڑ چراہگاہ کی ضرورت ہے۔ یہ آج کے یورپی یونین سے 1.6 گنا کا علاقہ ہے۔
یہ تصور مشکل ہے لیکن یوریشین زمین کے مغربی علاقے میں یہ طویل عرصے تک کی حقیقت تھی۔ یہ علاقہ یورپ کا تھا۔ انیسویں صدی تک یورپ میں کپاس کا استعمال بہت کم تھا۔
ایسا کیوں ہوا کہ دنیا کے اس علاقے نے جہاں کپاس کا عمل دخل سب سے کم تھا (یورپ) کپاس کی سلطنت تخلیق کی اور اس پر حاوی رہا؟ اٹھارہویں صدی کا ایک باعلم مبصر یہ پیشگوئی کرتا کہ کپاس کی پیداوار کا مرکز ہندوستان یا چین رہے گا۔ اور 1780 تک، یہ ممالک یورپ یا شمالی امریکہ کے مقابلے میں زیادہ خام کپاس اور ٹیکسٹائیل پیدا کرتے رہے۔ لیکن یہ ایسا نہیں رہا۔ یورپی ریاستیں اور سرمایہ دار اس کاروبار کے مرکز میں آ گئے۔ صنعتی انقلاب کا وقت تھا جب چین اور ہندوستان سمیت دنیا کے باقی حصوں کو یورپ نے پچھاڑ دیا۔ اور اس انقلاب کی ابتدا کپاس کی صنعت سے ہوئی تھی۔ اس نے وہ پلیٹ فارم فراہم کیا جس سے دوسری صنعتوں کی تخلیق ہوئی اور ایک وسیع تر صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخ، سماجی سائنسدان، پالیسی ساز اور ہر طرح کے نظریاتی لوگ اس کی شروعات کی گتھی سلجھانے میں لگے رہیں ہیں۔ سب سے مشکل سوال یہ رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہزاروں سال سے سست رفتار معاشی گروتھ کے بعد اٹھارہویں صدی کے آخر میں انسانوں کے کچھ گروپ بہت تیزی سے امیر ہونے لگے تھے۔ سکالر اب ان دہائیوں کو great divergence کہتے ہیں۔ اس وقت بننے والی یہ خلیج آج کی دنیا تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس پر بڑے مباحث ہوتے رہے ہیں۔ اور آسانی سے کئی طرح کے دلائل دئے جا سکتے ہیں۔ کئی قنوطیت والے، کئی یاسیت والے اور کئی پرامید۔ ہم ان سارے دلائل کے قریب سے دبے پاوٗں نکل کر صرف اس صنعت کو دیکھیں گے جس نے اس great divergence کی داغ بیل ڈالی۔
کپاس پر توجہ رکھنا کئی آسان وضاحتوں کو مشکوک کر دے گا جنہیں عام طور پر سچ مانا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر آسان وضاحتیں ہیں کہ یورپ کی تیزرفتار ترقی کا تعلق مذہبی طبقے کی معاشرے پر گرفت ڈھیلی ہونے سے ہے۔ یا روشن خیالی کی آمد سے ہے۔ یا علاقے کی آب و ہوا اور موسم سے ہے۔ یا قانون کی حکمرانی سے ہے۔ یا بینک آف انگلینڈ جیسے اداروں سے ہے۔
ان کا کوئی کردار ضرور ہو گا لیکن یہ کپاس کی سلطنت کی وضاحت نہیں کر سکتیں، جو اس انقلاب کا نقطہ آغاز تھا۔ اور کئی ان میں سے غلط ہیں۔
دنیا کی پہلی صنعتی قوم، برطانیہ، ویسی بالکل نہیں تھی جیسا اسے کئی بار دکھایا جاتا ہے۔ یہ لبرل ریاست نہیں تھی جس میں غیرجانبدار اور جاندار ادارے تھے۔ یہ امپیریل ریاست تھی جس کا عسکری بجٹ بہت زیادہ تھا۔ مسلسل حالتِ جنگ میں تھی۔ طاقتور بیوروکریسی تھی۔ ٹیکس زیادہ تھے۔ حکومتی قرضہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ آزاد تجارت کا ماحول نہیں تھا۔ اور جمہوریت بھی نہیں تھی۔
اسی طرح تاریخ کی وہ وضاحتیں جو علاقوں یا ممالک میں طبقاتی کشمکش کی نگاہ سے تاریخ بیان کرتی ہیں وہ بھی اسی طرح ناقص ہیں۔
یورپ نے ریاست اور سرمایے کی طاقت کو ہم آہنگ کیا تھا۔ یہ طاقت کے زور پر قائم کردہ عالمی پروڈکشن کامپلیکس تھی۔ اس میں سرمایہ بھی تھا، مہارت بھی، نیٹورک بھی اور تجارتی ادارے بھی۔ اس نے جدید دنیا کی ٹیکنولوجی اور دولت کی تخلیق کی تھی۔
اور اس کو صرف اس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب اسے گلوبل نظر سے دیکھا جائے۔ سرمایہ، محنت، لوگ، مصنوعات، خام مال کی دنیا میں نقل و حرکت۔ دنیا کے دور دراز کے مقامات کو آپس میں منسلک کرنا۔ یہ اس دور میں ہونے والی عظیم transformation کے پیچھے تھا۔ اس کا مرکزی کردار روئی کا پھول تھا اور یہ نظام war capitalism کا تھا۔
آج ہم صنعتی کیپٹلزم کو معاہدوں اور منڈیوں کی صورت میں جانتے ہیں جو لوگوں کو آزاد کرتا ہے لیکن ابتدائی کیپٹلزم میں جبر اور تشدد بھی تھا۔ جدید معاشی نظام میں قانون کی مدد سے ملکیتی حقوق کی اہمیت ہے لیکن ابتدائی نظام میں یہ چھینے جاتے تھے۔ آج ریاست کی طاقت سے چلنے والے بااثر ادارے اور قانون کی بالادستی اس کا خاصا ہیں لیکن ابتدائی نظام کی خاصیت طاقتور افراد تھے۔ جنگی کیپٹلزم سے صنعتی کیپٹلزم ارتقا پذیر ہوا۔ اس میں غلامی کا ادارہ بھی تھا اور قبضے کی زمینیں بھی۔ وقت کے ساتھ اس میں اجرت پر مزدوری اور ملکیتی حقوق جیسے تصورات مضبوط ہوئے۔
جب اپنے قدم لے کر دنیا میں یہ نظام ابھرا تو کپاس کی جنس کی تجارت کسی بھی اور شے سے زیادہ تھی۔ یہ کارخانوں کی اور کھیتوں کی پیداوار تھی۔ “فیکٹری” کا تصور خود کاٹن کی صنعت کی ایجاد ہے۔ اور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں، خواہ امریکہ ہو یا مصر، میکسیکو یا برازیل، جاپان یا چین، صنعت کی ابتدا اسی سے ہوئی۔
صنعتی کیپٹلزم کا یہ مطلب نکلا کہ ریاست سب سے طاقتور ادارہ تھا۔ اس نے محنت کش طبقے کے سائز اور طاقت میں بھی اضافہ کیا۔ سرمایہ دار کا انحصار ریاست پر تھا۔ ریاست کا انحصار لوگوں پر، لوگوں کا صنعت پر۔ اور اس مثلث کا نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں عام لوگوں کے منظم ہونے کا تصور آیا۔ سیاسی جماعتیں، یونین بننے لگیں۔ انہوں نے آہستہ آہستہ کئی دہائیوں میں اجرت اور کام کرنے کے حالات بہتر کئے۔ اس نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا۔ اس نے ایسے ملکوں کے لئے مواقع پیدا کئے جہاں پیداوار کی لاگت کم تھی۔ اس نے صنعتی کیپٹلزم کو نئے ملکوں میں متعارف کروایا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کاٹن کی صنعت نے یورپ اور شمال مشرقی امریکہ کو چھوڑ دیا اور واپس دنیا کے جنوب کی طرف چلی گئی۔
یہاں پر سوال کہ ایسا کپاس کے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ دوسری اجناس کے ساتھ کیوں نہیں؟ آخر دوسری اجناس کی تجارت بھی ہوتی رہی جیسا کہ چینی، چاول، ربر، انڈگو وغیرہ۔ کپاس ان میں سے منفرد ہے۔ اس میں دو الگ مراحل ہیں، جو دونوں ہی مزدوری کا تقاضا کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ کھیت میں ہے، دوسرا فیکٹری میں۔ تمباکو یا چینی نے یورپ میں بڑے صنعتی گروپ نہیں بنائے، جو کپاس نے بنائے۔ چاول کی پیداوار نے بیک وقت غلامی اور اجرت پر مزدوری میں اضافہ نہیں کیا، کپاس نے کیا۔ انڈگو کی پیداوار اور پراسسنگ نے نئی منڈیاں نہیں کھولیں، کپاس نے کھولیں۔ جس طریقے سے کپاس نے پوری دنیا کو اور الگ برِاعظموں کو ایک جال میں آپس میں بنا، وہ کسی اور نے نہیں کیا۔ اس وجہ سے اس کی تاریخ جدید دنیا کی سیاستی اور معاشی تاریخ کو سمجھنے کے لئے کنجی دیتی ہے۔ اس نے دیہات اور شہروں دونوں کو تبدیل کیا۔
عالمی کیپٹلزم نے انسانوں کو فیوڈل نظام سے آزاد کروایا۔ یہ جدید زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اس وجہ سے ہمارا اس سے تعلق نہ صرف معاشی طور پر ہے بلکہ جذباتی طور پر بھی۔ لیکن اس کا آغاز رومانوی یا خوشگوار نہیں تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...