آج کپاس ہر جگہ پر ہے۔ اور اتنی زیادہ عام ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ یہ انسانیت کی عظیم کامیابی ہے۔ اس وقت جب آپ یہ فقرہ پڑھ رہے ہیں، امکان ہے کہ آپ نے کپاس سے بنی ہوئی کوئی شے پہن رکھی ہو گی۔ اور اس بات کا بھی خاصا امکان ہے کہ آپ نے کبھی بھی روئی کے پھول کو اس کی شاخ سے جدا نہیں کیا ہو گا، کبھی خام ریشے کا جال نہیں دیکھا ہو گا یا کان کے پردے پھاڑ دینے والی پاور لوم کی آواز نہیں سنی ہو گی۔
یہ پودا بیک وقت معلوم بھی ہے اور نامعلوم بھی۔ ہم اس کی موجودگی کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ یہ ہماری جلد پر ہے۔ اس کو اوڑھ کر سوتے ہیں۔ اس سے نوزائیدہ بچوں کا جھولا بناتے ہیں۔ اس سے کرنسی نوٹ بنتے ہیں، کافی کے فلٹر بھی۔ کھانا پکانے کے لئے ویجیٹیبل آئل بنایا جاتا ہے، منہ دھونے کا صابن بھی۔ ہماری جنگیں لڑنے کے لئے بارود میں بھی۔ یہ کتاب کا حصہ بھی ہے۔
کپاس 900 سال تک دنیا کی اہم ترین مینوفیکچرنگ صنعت رہی ہے۔ گیارہویں صدی سے بیسویں صدی کے آغاز تک. اس کے بعد دوسری صنعتیں اس سے آگے نکل گئین لیکن روزگار اور تجارت کے اعتبار سے اس کی اہمیت باقی ہے۔ پچھلے سال دنیا میں کپاس کی 123 ملین گانٹھیں ییدا ہوئی تھیں۔ ہر ایک کا وزن 400 پاونڈ تھا۔ ان سے دنیا کے ہر شخص کے لئے بیس ٹی شرٹ بنائی جا سکتی تھیں۔ اگر ان کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا جائے تو چار ہزار میل اونچا مینار بن جاتا۔ اگر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تو یہ دنیا کا ڈیڑھ چکر لگا لیتیں۔ چین سے انڈیا اور امریکہ، مغربی افریقہ سے وسطی ایشیا تک، کپاس کے کھیت پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے ریشے کو لاکھوں مزدوروں والے کارخانوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس سے بنی مصنوعات تمام دنیا میں خریدی جاتی ہیں، کسی دور افتادہ دیہات سے لے کر کسی بڑے شہر کے سپرسٹور میں۔ یہ ان چند اشیا میں سے ہے جو دنیا میں ہر جگہ پر ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا ریشہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سیریز کپاس کی سلطنت کے عروج و زوال پر ہے۔ تجارت، پیداوار اور صرف جس نے کپاس کو متحرک کے دنیا کی شکل بدلی۔ اس قدیم پودے کے حیاتیاتی خزانے کو غیرمقفل کیا۔ دنیا بھر میں قدیم صنعت، مہارت اور بڑی منڈیوں کو بدلا اور اس میں کامیاب ہونے والے بالآخر اپنی ہی کامیابی کا شکار ہو گئے۔
اس سفر میں کروڑوں لوگوں نے کام کیا۔ اپنی زندگیاں کپاس کے کھیتوں میں گزاریں، اس سخت جان پودے کے پھول سے ریشہ الگ کرنے میں، کپاس کی گانٹھوں کو چھکڑے میں لادنے میں، چھکڑے سے کشتی، کشتی سے ٹرین میں منتقل کرنے میں، کم عمری میں ان “شیطانی کارخانوں” میں کام کرنے میں جو چین سے امریکہ تک پھیلے تھے۔ ان زرخیز کھیتوں تک رسائی کے لئے جنگیں لڑی گئیں۔ زمینداروں نے ان گنت لوگوں کو بیڑیوں میں باندھا، آجروں نے کارخانوں میں کام کرنے والوں کا بچپن ختم کیا، نئی مشینوں کی آمد نے قدیم آبادی کے مراکز سے آبادیاں خالی کر دیں اور مزدور، غلام ہوں یا آزاد، اپنی روٹی کے خاطر مشقت کرتے رہے۔ خواتین اور حضرات، جو اپنے چھوٹے سے قطعہ اراضی پر کھانے کے ساتھ اس پودے کو اگاتے تھے، کا طرزِ زندگی ختم ہو گیا۔
گھریلو صنعت ختم ہوئی۔ زرعی آلات اور پاور لوم ان کی جگہ پر آ گئے۔ لوگوں نے اپنے چرخے اور کھیت چھوڑ دئے۔ نہ ختم ہونے والے پریشر اور نہ ختم ہونے والے قرض کے نہ ختم ہونے والے چکر میں جکڑے گئے۔ کپاس کی سلطنت، اپنے آغاز ہی سے، عالمی جدوجہد رہی ہے۔ غلام اور زمیندار، تاجر اور ریاستی اہلکار، کسان اور تاجر، مزدور اور صنعتکار کے بیچ۔ اور کپاس کی سلطنت نے جدید دنیا اور اس کی جدید جدوجہد تخلیق کی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...