ہمارا نظامِ شمسی 4.6 ارب سال پہلے وجود میں آیا۔ اس نظام میں سورج جو کائنات کے کھربوں ستاروں میں ایک عام سا ستارہ ہے، کے گرد آٹھ سیارے گھومتے ہیں۔ ان سیاروں میں سے چار کی ساخت میں چٹانیں ہیں جنکی سطح کا کچھ یا بیشتر حصہ ٹھوس ہے جبکہ دیگر چار گیس جائنٹس ہیں یعنی گیس سے بنے ہیں۔
ان میں سب سے دلچسپ ہماری زمین ہے جو سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ یہاں موجود پانی مائع حالت میں پایا جاتا ہے۔ اگر یہ سورج کے زیادہ قریب ہوتی تو اس پر موجود تمام پانی اُڑ کر خلا کی وسعتوں میں بکھر جاتا اور اگر بہت دور ہوتی تو پانی جم جاتا۔ کسی سیارے کا سورج یا اپنے ستارے کے گرد اس خاص فاصلے میں ہونا کہ وہاں پانی مائع حالت میں رہ سکے، Habitable Zone کہلاتا ہے۔ یعنی وہ علاقہ جہاں کسی شکل میں زندگی کے پنپنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کہ زندگی کے لیے پانی بے حد ضروری ہے۔ ہم آج جانتے ہیں کہ زمین پر زندگی آج سے 3.8 ارب سال قبل سمندروں میں وجود میں آئی۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا کائنات میں جو اس قدر وسیع اور قدیم ہے، زمین کے علاوہ کہیں اور بھی زندگی ہو سکتی ہے؟ اس کے لیے ہم جب خلاؤں کی وسعتوں میں جھانکتے ہیں تو اول ایسے ستارے ڈھونڈتے ہیں جو سورج جیسے یا سورج سے ٹھنڈے ہوں اور دوسرا ان ستاروں کے گرد کیا کوئی چٹانی سیارے موجود ہیں جیسے کہ زمین اور تیسرا کیا ان سیاروں کا اپنے ستاروں سے فاصلہ اس قدر ہے کہ یہاں پانی مائع حالت میں ہو سکے؟
اب تک کی تلاش میں ہم پانچ ہزار سے زائد ایسے سیارے ڈھونڈ چکے ہیں جو مختلف ستاروں کے نظام میں گھومتے ہیں۔ ان میں سے کئی گیس جائنٹس ہیں اور کئی چٹانی سیارے۔ کئی اپنے ستاروں کے بہت قریب تو کئی بہت دور۔ مگر کچھ ایسے ہیں جو Habitable Zone میں ہیں۔ ان میں سے کچھ زمین سے بڑے تو کچھ زمین جتنے یا اس سے چھوٹے ہیں۔
2022 میں خلا میں فعال جدید جیمز ویب ٹیلسکوپ بھی کائنات کی وسعتوں میں ایسے سیارے ڈھونڈ رہی ہے جہاں زندگی موجود ہو۔ جیمز ویب خلا میں کئی برس کام کرے گی اور اس دوران یہ اپنے وقت کا تقریباً چوتھا حصہ ایسے سیاروں کو ڈھونڈنے میں صرف کرے گی جہاں زندگی ہو سکتی ہے۔ اس کل وقت کا تقریباً 8 فیصد حصہ جیمز ویب ٹیلسکوپ محض ایک ستارے اور اسکے گرد سیاروں کے نظام پر صرف کرے گی جو زمین سے تقریباً 41 نوری سالوں کی مسافت پر واقع ہے۔ مگر کیوں؟
قریب 41 نوری سالوں کی مسافت پر سورج سے قدرے چھوٹا اور ٹھنڈا ستارہ جسکا نام TRAPPIST-1 ہے، اپنے گرد سات سیارے لیے خلا کی وسعتوں میں اربوں سالوں سے گھوم رہا ہے۔ یہ ستارہ سائز میں مشتری سے کچھ بڑا جبکہ ماس میں سورج کے محض 9 فیصد ماس کے برابر ہے۔ اس ستارے کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 2300 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ (سورج کی سطح کا درجہ حرارت اس سے تقریباً 2.5 گنا زیادہ ہے).
اس ستارے کو پہلی مرتبہ سن 2000 میں دریافت کیا گیا جبکہ اسکے گرد سیاروں کو 2016 اور 2017 میں زمین پر چِلی میں موجود La Silla نامی فلکی مشاہدہ گاہ اور زمین پر دیگر مشاہدہ گاہوں کے ایک فلکیاتی سروے میں دریافت کیا گیا۔ اس نظام میں تمام سیارے اپنے ستارے کے گرد مداروں میں 1.5 سے 19 دن میں ایک چکر مکمل کرتے ہیں۔ اور ان تمام سیاروں کا فاصلہ اپنے ستارے سے بے حد کم ہے۔ کتنا کم؟ اگر آپ سورج سے قریبی سیارے عطارد کا فاصلہ لیں جو تقریباً 7 کروڑ کلومیٹر ہے تو اس فاصلے سے بھی کم میں یہ تمام سیارے اپنے اس سورج سے چھوٹے اور ٹھنڈے ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ سو یہ نظام ہمارے نظامِ شمسی سے کہیں چھوٹا ہے ۔ تاہم چونکہ TRAPPIST ستارہ سورج سے کافی ٹھنڈا ہے لہذا اس کے گرد پانچ سیارے ایسے ہیں جہاں پانی(اگر ہوا تو) مائع حالت میں ہو سکتا ہے۔ اپنے ستارے کے بیحد قریب ہونے کے باعث یہ اس سے ٹائیڈلی لاکڈ ہیں یعنی انکی ایک ہی سمت اپنے ستارے کے سامنے رہتی ہے۔ جیسے چاند زمین کے ساتھ ٹائیڈل لاکڈ ہے اور اسکی ایک سائیڈ ہی زمین سے نظر آتی ہے۔
البتہ جو شے اس نظام کو بے حد منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ یہ ہمارے نظامِ شمسی سے بھی پرانا نظام ہے۔ اسے بنے تقریباً 7.6 ارب سال گزر چکے ہیں۔ اس نظام میں موجود سیاروں کی کیا کوئی آب و ہوا اب یا ماضی میں تھی؟ اس پر تحقیق جاری ہے۔ کیا ان سیاروں میں سے کسی پر زندگی ہو سکتی ہے؟ ہم فی الحال نہیں جانتے۔ ممکن ہے یہاں کوئی زندگی ماضی میں وجود رکھتی ہو۔ کوئی ایسی ذہین مخلوق جس نے وقت کی فراوانی میں انسانوں کی طرح ایک مکمل تہذیب دیکھی ہو یا جو جدید ٹیکنالوجی سے ان سیاروں سے نکل کر خلا کی وسعتوں میں کہیں اور جا بسے ہوں جب انکا ستارہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا ہو۔ ہم یہ نہیں جانتے ۔ البتہ یہ نظام کسی صورت انسانی جستجو اور تخیل کے لیے کم دلچسپ نہیں۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...