ہاں بھئی گھوڑے بیچو گے۔ جی ہاں۔ سارے گھوڑے بیچیں گے۔ اچھا۔ تمہارے پاس وہ گھوڑا ہے جو آدمی کا وفادار ہوتا ہے۔ جناب ۔ سارے گھوڑے ہی وفا دار ہوتے ہیں۔ آپ کو کون سا پسند ہے۔ ہمیں جو گھوڑا پسند ہے وہ آپ کے پاس نہیں ہے۔ ارے صاحب۔ ہمارے پاس ہر نسل اور ہر ملک کا گھوڑا ہے ۔ آپ بتلائیں تو سہی۔ آپ کو کون سا پسند ہے۔ نہیں ہمیں جو گھوڑا درکار ہے وہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ آج نہیں تو کل جب تمہارے یہاں آجا ئیگا تو خرید لیں گے۔ دیکھو ہم سفید گھوڑوں کی منہ مانگی قیمت دیتے ہیں۔ اگر تم چاہو۔ تو ہم تمہیں ابھی رقم دے سکتے ہیں۔ گھوڑا کبھی بھی لے لیں گے۔ نہیں صاحب۔ ہم سوداگر لوگ ہیں۔ سودا کئے بغیر رقم نہیں لیتے۔
اچھا۔ لیکن ہم عجب لوگ ہیں۔ ان دیکھے سودے کرتے ہیں۔ صاحب ۔ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ ہم بس سیر و تفریح کرتے ہیں، ملکوں ملکوں گھومتے رہتے ہیں۔ جہاں جو چیز پسند آئی وہ خرید لیتے ہیں بس یہی ہمارا شوق ہے۔ صاحب آپ کہاں سے آئے ہیں۔ اور یہاں کیا کرنیکا کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھئی ساری دنیا ہمارا گھر ہے۔ بس ہم نے پہلے ہی تمہیں بتلا دیا ہے کہ ہم شوقین آدمی ہیںَ اور صاحب آپ کے ساتھ کون ہے؟ یہ میرے دوست ہیں رچرڈ۔یہ بھی من موجی ہیں۔ اور میں بھی۔ اور میں تمہیں کس نام سے پکاروں۔
مجھے اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔ آباء کا پیشہ بھی گھوڑے پالنا تھا۔ یہاں ہمارے پاس بہت سے گھوڑے پال رکھے ہیں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے جی ہمارے پاس۔ اچھا خاصے خوش قسمت لگتے ہو۔ اور کامیاب بھی یہ بتلائو کہ تمہاری کامیابی کا راز کیا ہے۔ صاحب۔ ہم وعدے کے پکے اور اپنے پیشے سے مخلص ہیں۔ گھوڑے پالنا اور بیچنا ہی ہمارا مشغلہ ہے۔ اور گھوڑے دوڑانا۔ ؟؟؟؟
صاحب۔ اس سے آ پکی کیا مراد ہے۔ بھائی۔ گھوڑوں پر لاکھوں روپے کی شرطیں بھی لگتی ہیں۔ جو گھوڑا میدان مار لیتا ہے۔ بڑا خوش قسمت ہوتا ہے۔ بادام اور سیب کھاتا ہے۔ سارا دن خود کھڑا رہتا ہے مگر بہت سوں کو نچاتا رہتا ہے۔ یہ گھوڑے قیمتی ہوتے ہیں۔ چوری بھی کر لئے جاتے ہیں اور کبھی کبھی زہر دے کر مار بھی دیئے جاتے ہیں۔ اچھا ۔ گھوڑوں کو زہر دے کر مارنے والے اچھے نہیں ہوتے۔ ہاں بات تمہاری ٹھیک ہے ۔مگر کیا کریں۔ لالچ بری بلا ہے۔ ظالم ہر کام کر لیتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ تمہارا سب سے اچھا گھوڑا لے کر آئو۔ اور ہم اپنا گھوڑا لے کر آئیں گے۔ پھر دونوں میں مقابلہ ہوگا۔ جو جیتے گا اسے پیسے ملیں گے۔
صاحب۔ ہم نے آج تک گھوڑوں کو اس طرح نہیں دوڑایا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ گھوڑا بس میدانِ جنگ میں ہی بھاگتا اچھا لگتا ہے۔ اللہ کے بندے کیا دقیا نوسی باتیں کرتے ہو۔ اب زمانہ اور ہے اور پھر تمہاری ریاست میں کھیل تماشہ لوگ بڑے مزے سے دیکھتے ہیں۔ لائو۔ ایک کھیل تماشہ کریں، ساری ریاست میں دھوم مچ جائیگی۔ ہم ہر بار تمہیں ہی جتوائیں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے۔ دولت سے تمہاراگھر بھر دیں گے۔ اور سنو۔ زمانہ آئینہ آہستہ آہستہ بدل رہا ہے ہمارے ملک میں اب بگھی کی جگہ موٹر آگئی ہے۔ تم ہمارا کہنا مانو۔ ہم تمہیں موٹر منگوا کر دیں گے۔ ایسی بھاگتی ہے کہ گھوڑا بھی کیا بھاگے گا۔
سچ صاحب ! کیسی ہوتی ہے موٹر۔۔تمہیں دو تین ماہ بعد دکھلائیں گے۔ ہاں تو پھر گھوڑوں کے مقابلے کا تماشہ شروع۔
ارے صاحب۔ میں بھول گیا تھا۔ آپ لسی پانی پییں گے۔ نہیں ہم وسکی پیتے ہیں۔ تم نے کبھی پی ہے۔
نہیں جناب۔ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔
اللہ کا بندہ۔ میں تمہیں کیا بتلائوں کہ اس کے پینے سے کیا سرور آتا ہے۔ سارا جسم لطف و نشاط سے بھر جاتا ہے۔ ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے۔ صاحب۔ آپ کی باتیں سن کر میں پاگل ہو جائونگا۔ ایسی باتیں میں نے کبھی نہیں سنی ہیں۔ اللہ بندہ۔ ہم تمہیں اپنے ملک لے جائیں گے۔ وہاں دیکھنا کہ رنگ و بو کا کیسا طوفان ہوتا ہے۔ دیکھو ۔ میرے دوست۔ تم اس شہر اور گردو نواح میں منادی کرادو۔ کہ ولایتی اور دیسی گھوڑوں کا مقابلہ۔ جہاں بجلیاں چمکیں گی اور برق رفتاری کے مقابلہ کہ دھول کوسوں تک اٹھے گی۔ جیتنے والے گھوڑے کو خود جناب نواب صاحب انعام سے نوازیں گے۔ میں پوری ریاست میں ہر جگہ منادی کرائوں گا۔ لوگوں کا اشتیاق بڑھائوں گااور پھر تم دیکھنا کیسا ہُن بر سے گا ۔ یہ مقابلہ ایک ماہ بعد ہوگا۔ میں آپکے شہر میں ایک حویلی لے کر رہوں گا۔ دونوں طرف سے تیاریاں زور و شور سے ہوں گی۔سمجھے۔ اور ہاں تمہارا گھوڑا مشکی ہوگا اور میرا سفید۔ سیاہ وسفید کا مقابلہ ۔ تم دیکھتے جانا اللہ بندہ۔ کہ ہم کیا کریں گے۔ صاحب! جو آپ کی مرضی۔ مگر ہمارے یہاں گھوڑے بگھی میں جوتے جاتے ہیں۔ چلو ایسا کر لیں گے۔ مگر بعد میں صرف گھوڑے دوڑیں گے۔ تمہاری بگھی کون چلائے گا۔ صاحب منگو چلائے گا۔ اور ہماری بگھی رچرڈ چلائے گا۔ ٹھیک ہے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ صاحب ! آپ وہسکی کا کہہ رہے تھے۔ ارے معصوم اللہ بندہ۔ وہسکی۔ وہ بھی تمہیں پلائیں گے۔ یہ چیز خوشی کے موقع پر اچھی لگتی ہے۔ جب تمہارا گھوڑا جیتے گا۔ تب۔ اور ہاں اپنے گھوڑے کو بادام ، پستے، سیب اور مربعہ جات وغیرہ کھلانا۔ قالین پر گھوڑا کو بٹھانا۔ مخمل کی گدیاں۔ بھی رکھ لینا۔ گھوڑے کے لئے خدمت گار بھی ہوں۔ لید اٹھانے والے الگ، مالش کرنے والے الگ، خوراک کھلانے والے الگ، بس ایک آدمی روز ہماری حویلی میں بھیجنا۔ جو کہ ہم کریں وہ تم کرنا۔ اور ہاں جو لوگ تمہارے گھوڑے کو دیکھنے آئیں۔ ان کا اشتیاق بڑھانا کہ ایسا مقابلہ ہوگا کہ دنیا دنگ رہ جائیگی۔ ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اچھا ہم چلتے ہیں۔۔۔۔۔ اچھا صاحب اللہ بیلی۔
اللہ بندہ کی حویلی دوسرے دن سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ اللہ بندہ نے سارے شہر میں گھڑ دوڑ کی منادی کرادی تھی۔ ہر شخص اس دلچسپ معرکے کو دیکھنے کا متمنی تھا۔ لوگ جو ق در جوق آکر اللہ بندہ سے کہتے۔ خان صاحب! ہمیں یقین ہے کہ آپ میدان مار لیں گے۔ بھئی آپ خوب محنت کر رہے ہیں۔ دن بدن مشکی بھی اپنا رنگ نکال رہا ہے۔ اس کا جسم تو دیکھو کیسا لہرین لیتانظر آتا ہے۔ اللہ بندہ کے دوست جبار خان نے تو حویلی میں ایک طرح سے ڈیرہ لگالیا تھا۔ وہ اللہ بندہ سے کہتا یار۔ مقابلہ جیت کر دکھا نا ہے میں نے تین آدمی مشکی کی مالش کے لئے لگا دیتے ہیںاور پنڈت ہری رام کو مربعہ جات کے لئے پانچ ہزار روپے دے دیئے ہیں۔ سنا ہے کہ خلیق اللہ شیروانی گوروں سے مل گیا ہے۔ دن رات ان کے ساتھ ہے۔ آپ کا پرانا دشمن ہے، کیا بدلہ لے رہا ہے۔ جبار خان ۔ شیروانی مفاد پرست ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گوروں نے اسے بھی کار کا بتلا دیا ہو۔ ارے ہاں۔ اللہ بندہ بھئی تم کار منگوائو تو ایک ہمیں بھی منگو ا دینا۔ دونوں بھائی اکھٹے گاڑیاں لے کر نکلیں گے تو لوگ حیرت سے دیکھیں گے اور دشمنوں کے سینے پر مونگ دل جائیگی۔ اور ہاں۔ اللہ بندہ منگو سے کہو کہ مشکی کو روزانہ پانچ میل میں چلا یا کرے۔ ویسے اللہ بندہ۔ یہ گورے بڑے چالاک ہیں انہوں نے پوری ریاست میں منادی کرادی ہے۔ کل میرے سسرال والوں نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ بھی مقابلہ دیکھنے یہا ں آرہے ہیں۔ اپنی بھی حویلی رشتہ داروں سے بھری پڑی ہے۔ جبار خان۔ ویسے تم دیکھنا کہ میں کیسے گوروں کو لوہے کے چنے چبواتا ہوں۔ بس ایک دفعہ مشکی میدان مارلے پھر دیکھنا۔ اللہ بندہ میں نے سنا ہے کہ حضرت نواب صاحب جیتنے والے کو خود بہ نفس نفیس انعام دیں گے۔ اچھا۔ یہ کیسے۔ کل حاجی رزاق جی بتلا رہے تھے کہ یہ اعلان نواب صاحب نے خود دربار عالم میں کیا تھا۔ گورے بھی وہاں موجود تھے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نواب صاحب کو تیاریوں کی لمحہ بہ لمحہ خبریں دی جا رہی ہیں۔ پوری ریاست میں لوگ شرطیں لگا رہے ہیں۔ خود شیروانی نے گورے کے گھوڑے کے جیتنے کی پیش گوئی کی ہے۔ قسمت رائے۔ لوگوں سے شرطیں لگو ا رہاہے۔ بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ سفید گھوڑے بہت کم ہارتے ہیں بلکہ ہمیشہ جیتتے ہیں۔جبار خان ۔ اچھا ہے شغل میلہ جاری ہے۔
اور ہاں تم لوگوں میں یہ بات پھیل وادو کہ مشکی کو اصلی چاندی کے ورق لگے مربعہ سیب کھلایا جا رہا ہے۔ اور سنو جبار خان میں نے اشرف سنار سے کہہ کر مشکی کے پانی پینے کیلئے طلائی تسلہ بنوایا ہے۔ ہلکا سا آب نقشین بھی ملایا جا رہا ہے۔ تاکہ چستی بر قرار رہے۔ ویسے پورے شہر میں دھوم ہے کہ اللہ بندہ کا مشکی میدان مار لے گا۔ نہیں اللہ بندہ۔ تمام روسائے شہر گورے کے گھوڑے کے گیت گا رہے ہیں۔ گوروں نے نہ جانے کیا گھول کے پلادیا ہے کہ سب اُن گُن گا رہے ہیں۔
جبار خان ۔ گوروں نے سب کو وہسکی کامزہ چکھادیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آب حیات ہے۔
اللہ بندہ کیا آپ نے چکھی ہے؟ نہیں جبار خان۔ سنا ہے کہ ظالم جسم میں آگ بھر دیتی ہے۔ سارے جسم میں آتش بازیاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ اور اگر ساقی اچھا میسر آجائے تو دل کی گلناریاں تاک دھنا دھن تاک۔ سے گونجتی رہتی ہیں۔ یوں سمجھو کہ۔ برق رکھ دی ہے کسی نے آشیانے میں۔ سوختہ سامان مثل پروانہ جاں وارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ غیرت نا ہیدکے خال پر دل سمر قند و بخارا الٹانے پر آجاتا ہے۔ تم نے سنا ہے کہ من تڑ پت تورے درشن کو آج۔
اللہ بندہ۔ آج سوداگر بچہ شاعری پر اترآیا ہے۔ کمال ہے بھئی۔ واہ۔ لطف بیاںسے لذت ملی۔ چلو جب چکھیں گے تو پھر بتلائیں گے۔ ہاں دیکھو!قبلہ نواب صاحب نے اپنے مصاحبین خاص سے کہا ہے کہ اللہ بندہ کا گھوڑا جیتے گا کیونکہ گھوڑوں کے بارے میں اللہ بندہ کو خاندانی تجربہ حاصل ہے۔ مگر مصاحبین نواب صاحب کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گور ے کا گھوڑا بھی کمال کا ہے۔ جب دُلکی چال چلتا ہے تو پورا جسم دمکتا، پھڑکتا اور مچلتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے دوستوں نے بتلایا ہے کہ گورے کہہ رہے تھے کہ ان کا گھوڑا یونان کا ہے۔ اک خاص نسل کا۔ کہ جسے سکندر اعظم خود اپنے لئے پسند کرتا تھا۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ نواب صاحب قبلہ کا خیال ہے کہ اگر یہ گھوڑا دوڑ جیت گیا تو وہ اسے خرید لیں گے۔ اور ذاتی استعمال کے لئے رکھیں گے۔
جبار خان۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اور سنائو۔ کیا مشاغل ہیں آج کل۔۔۔
اللہ بندہ ۔ یار بات یہ ہے کہ میں تو دن رات تمہارے مشکی کے لئے وقف کئے ہوئے ہوں۔ اس دوران ان کا بلاوا بھی آیا مگر ہم نے میر کلو سے کہلو ا دیا ہے کہ ذرا فرصت ملے گی تو ڈیرے پر آئیں گے۔ ہم نے تو تصور جاناںکو آواز دوست پر قربان کر دیا ہے۔ اللہ بندہ! اب تو حویلیوں میں میرا ثنیں گاتی پھر رہی ہیں۔
بنو تیرا بنا موٹر لایا ری ۔
جبار خان۔ یارنیا زمانہ اپنے ساتھ کیا کیا رنگ لایا ہے۔ وہسکی۔ موٹر۔ شبا ب کے قصے۔ کباب خستہ جیسی باتیں۔
ہاں اللہ بندہ۔ یار من مجھے آتش یاد آیا۔
کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے تو روتا ہوں
ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا
جبار خان۔ میرے خیال میں ہمارا عہد شیخی خوری کا عہد ہے جس میں انا پرستی نمایاں ہے ۔
اللہ بندہ۔ میرے یار یہ ہر دور کی خرابیاں ہیں۔یہ خرابیاں فطرت انسانی میں ہمیشہ سے ہیں۔ ان باتوں کو چھوڑو۔ ہاں مشکی کی بات کرو۔ واللہ اگر میدان مارے تو گورے کی شیخی دھری کی دھری رہ جائیگی۔ ہمارا میر کلو کہہ رہا تھا کہ صاحب! گورے کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی بگھی پر میم لوگ کو بھی بٹھائیں گے۔ ان کی چیخوں کو سن کر گھوڑا اور تیز دوڑے گا۔
جبار خان۔ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ پھر ہم کیوں نہ منگو کے کے ساتھ گل بدن جان الماس اور ساوتری کو بٹھائیںگے۔
اللہ بندہ۔ یہ تو بقول آتش، تقلید ہوئی، اور وہ بھی اندھی۔
نہیں جبار خان۔ یہ مسابقت کی بات ہے ہلہ گلہ رہے گا۔ اور دیکھو بات مقابلے کی بھی ہے۔
شانتی نگر کی ساری آبادی کا موضوع ایک ہی تھا۔ مقابلہ۔ ہر آدمی دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بات کر رہا تھا ۔ مونچھوں پر تائو دیئے جا رہے تھے۔ شہر میں جا بجا شامیانے لگا دیئے گئے تھے۔ دور دراز سے دوست احباب سب کھچ کر شانتی نگر آگئے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے شانتی نگر میں کوئی انو کھا کھیل ہو رہا ہے۔ بازاروں میں گہما گہمی بڑھ رہی تھی لوگوں کی آر جار کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے تھے مگر سب اپنے اپنے گھوڑوں کی شان میں لن ترانیاں کر رہے تھے۔ نواب صاحب کی مجلس میں سب سے زیادہ رونق تھی۔ لوگوں نے مقابلہ والے دن کے لئے نئے کپڑے سلوائے تھے۔ خواتین نے بنائو سنگھار کے لیے علیحدہ سے انتظامات کر رکھے تھے۔ یہ ساری باتیں اللہ بندہ کو مختلف ذرائع سے معلوم ہو ئی تھیں۔ وہ اپنے مشکی کو دیکھتا تو فخر سے گردن اونچی کر لیتا۔ سادھو سنت رام اسے پہلے ہی بتا گیا تھا کہ ستارے اس کی موافقت میں گردش کر رہے ہیں۔ مولوی چراغ دین۔ نے اس سے کہا تھا کہ گھوڑا جب بھی بگھی میں باندھا جائے سب سے پہلے بسم اللہ پڑھی جائے۔ منگو کے لئے لوگوں نے موتیے ، چنبیلی، گلاب کے ہار بنوا رکھے تھے۔
اللہ بندہ اپنی حویلی میں دوست احباب کو مشکی کے بارے میں نت نئی اطلاعات دے رہا تھا۔ اور اہل محفل اسے گوروں کے گھوڑے کے بارے میں اطلاعات دے رہے تھے۔ دوسری طرف مصاحبین بھی نواب صاحب کو دونوں طرف کی اطلاعات دے رہے تھے۔ اللہ بندہ گن گن کر دن کاٹ رہا تھا۔ اور لوگ ہر نئے آنے ولے دن میں مزید تازہ گل کھلاتے رہے۔ یوں بالآخر مقابلے کا دن آگیا۔
اللہ بندہ۔ کی حویلی کے سامنے جم غفیر جمع ہے۔ اللہ بندہ کو سب مبارک باد دے رہے ہیں۔ منگو گھوڑے کو بگھی میں جوت رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں منگو بگھی باہر لے آیا۔ اللہ بندہ۔ جبار خان۔ شاہ جی مراد بسم اللہ پڑھ کر بگھی پر سوار ہوتے ہیں۔ منگو آہستہ آہستہ بگھی کو آگے بڑھاتا ہے۔ لوگ نعرے لگاتے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ جبار خان کے آدمی ڈھول اور تاشے بجاتے ساتھ چل رہے ہیں۔ منگو مقام مقررہ پر آکر بگھی رو ک لیتا ہے۔
اللہ بندہ۔ بگھی سے اترتا ہے۔ ساتھ ہی شاہ مراد اور جبار خان بھی اتر آتے ہیں۔ آئیے خان صاحب ! رچرڈآگے بڑھ کر اللہ بندے سے ہاتھ ملاتا ہے۔
ہاں بھئی۔ تمہار ا گھوڑا بھاگنے کو تیار ہے۔
جناب۔ بالکل تیار ہے۔ اور آپ کا ؟ ہمارا بھی تیار ہے۔
تو پھر بسم اللہ۔ ٹھہریے خان صاحب۔ ہمارا میم لوگ آجائے۔ تمہارا میم لوگ کدھر ہے۔ ہمارا میم لوگ بھی آتا ہے۔ جبار خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر بعد گھر دوڑ شروع ہوگئی۔ منچلے کچھ دیر تک گھوڑوں کے ساتھ بھاگے مگر تھک کر پھر وہیں بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد نواب صاحب قبلہ بھی اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے آئے ۔ اللہ بندہ اور ولیم نے آگے بڑھ کر نواب صاحب کا استقبال کیا۔ شانتی نگر کا ہر جوان اور بوڑھا ہاتھوں میں ہار لئے جیتنے والے کے منتظر کھڑے تھے۔ لوگ آپس میںپھر ایک دوسرے کو جیتنے والے کے بارے میں بتلا رہے تھے کہ اچانک سوار اٹھا۔ سب نے دیکھا کہ مشکی اپنی بگھی سمیت بھاگا چلا آرہا ہے۔ اور منگو گھوڑے کی راسیں پکڑے بگھی میں تن کے کھڑا ہوا ہے۔ مبارک سلامت کے شور کے ساتھ ہی منگو بگھی کھڑی کرکے اللہ بندہ کے پاس آیا۔ سرکار جیت مبارک ہو۔ نواب صاحب قبلہ نے بھی اللہ بندہ کو مبارک باد دی۔ عوام ڈھول کی تھاپ پر والہانہ رقص کر رہے تھے۔ خان صاحب۔ مبارک ہو۔ ولیم نے آگے بڑھ کر اللہ بندہ کو گلے لگا لیا۔ لوگ خوشی کے مارے بے حال ہو رہے تھے۔ ولیم اور اللہ بندہ، منگو کی بگھی میں بیٹھ کر حویلی کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد منگو نے بگھی حویلی پر روک دی۔
آئیے خان صاحب۔ جشن مناتے ہیں۔ ولیم نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
ہاں بھئی۔ جشن تو ہوگا۔ اللہ رکھا اور ولیم حویلی میں داخل ہو گئے۔
خان صاحب۔ دیکھا تم نے کیسا موج میلہ رہا۔ آپ بھی وہسکی سے جشن فتح منائیں۔ آپ کے لئے میں نے موٹر کار منگوائی ہے۔ جلد ہی آجائیگی۔ اور نہ جانے کیا کیا آپ دیکھیں گے۔ آئیے۔ وہسکی کا پیگ لیں۔ دیکھیں کیا چیز ہے۔ آپ کی ریاست کا ہر امیر آدمی موٹر کار خرید نا چاہتا ہے۔ اور ولایتی وہسکی پینا چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ آج جو دھول ہمارے گھوڑوں نے اڑائی ہے وہ اک نئے دور کا پیش خیمہ ہے۔
یہ نیا دور ۔ ہمارے لئے بڑا ہی مسرت انگیز ثابت ہوگا۔ آپ دوسرا پیگ لیں۔ اور بتلائیں کہ ظالم کیسی آگ جسم میں لگاتی ہے۔ جس معاشرے میں وہسکی عورت اور موٹر کار ہوگی۔ وہاں ہمارا ہی اقتدار ہوگا۔ سو فیصد۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...