وہ سب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔ لمبے آدمی نے جھک کر میرا چہرہ دیکھا اور کہا یہ ہنس کیوں ہو رہا ہے۔ ہمیں دیکھ کر سب نے ایک آواز ہو کر کہا۔ ہمیں دیکھ کر آج تک کوئی ہنس نہیں سکا۔ اس کی کیا مجال۔ ایک ہی وار میں سر علیحدہ کر دونگا۔ نیلی آنکھوںوالے نے کہا۔ دیکھو۔ وہ مجھے آنکھ بھی ما رہا ہے۔ میں یہ مذاق برداشت نہیں کر سکتا۔ سفید ریش والا بولا سنو۔ وہ بول بھی رہا ہے۔ اور کہہ رہا ہے کہ میں بھی بادشاہ ہوں۔ بڑی سی پگڑی والے نے کہا میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بادشاہ۔ یہ ۔ نہیں۔ صرف ہم ہیں بادشاہ۔ تاریخ ہمارے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاش کا بادشاہ ہے۔ بند کرو یہ بکواس۔ ورنہ میں بھی اسے زمین بوس کردونگا۔ نیلی آنکھوں والے نے کہا ہمارے ہوتے ہوئے کوئی بادشاہ نہیں۔ ہماری سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے کبھی زمین پر چاند کی روشنی نہیں آنے دی۔ ہم سب کے آقا ہیں میں نے بہت زور سے کہا۔تم کمینے کہیں کے گھسیا رے لگتے ہو۔ بادشاہ تو تمہارا باپ بھی نہیں ہوگا۔ نیلی آنکھوں والے نے کہا۔ گالیاں دینے والے ہی کیا ہمیشہ زمین پر بادشاہ رہے ہیں۔ میں نے پھر سوال کیا۔
ہاں۔ ہاں۔۔ سب نے با آواز بلند کہا۔ تبھی تو یہاں اکیلے گھوم رہے ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
ابے اور مردود ۔ میں تیرا قیمہ کر دونگا۔ سفید داڑھی والے نے اپنی داڑھی کو مٹھی میں دباتے ہوئے کہا۔ تم سب پاگل ہو۔ انا پرست۔۔۔ مگر سنو۔۔۔ یہ زمین نہیں ہے۔ جہاں تم من مانی کرتے تھے۔ یہ میری سلطنت ہے۔ محبت آباد ۔ یہاں کا بادشاہ میں ہوں۔ ذرا دیکھو میری طاقت ۔ میں نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ اور وہ تمام کے تمام۔ زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔
رچرڈ۔۔ یہ جادوگر ہے۔ کاش یہ میرے بس میں ہوتا تو اسے بتلا تا کہ جادوگر کی سزا کیا ہے۔ بڑی سی پگڑی والے نے کہا ۔ ہاں چنگیز خان۔۔۔ یہ جادوگرہے۔
رچرڈ۔ اب بتلائو تمہار ی سلطنت میں سورج کیسے غروب نہیں ہوتا تھا۔ میں نے کہا۔
پاجی۔یہ شعبدے بازی چھوڑو۔ اور تلوار سے میرا مقابلہ کرو۔ ہم انگریز بہادر قوم ہیں۔ بہادر؟ واقعی تمہاری بہادری کے کارناموں سے تمہاری تاریخ بھری پڑی ہے۔ مکاری کو بہادری کہتے ہو۔ میں نے کہا۔جمہوریت کے نام پر ایوان امراء رکھنے والے، رچرڈ۔ اب تم اسی حال میں رہو گے۔
مگر میں نے توکوئی قصور نہیں کیا۔ براہِ کرم مجھے رہا کردیں اور وہ سلوک کریں جو بادشاہ بادشاہ سے کرتا ہے۔ اچھا چنگیز خان۔ تم بتلائو۔ کہ تم نے اپنی زندگی میں کسی سے ایسا سلوک کیا تھا۔ تم نے تو ساری عمر تخت لوٹے شہر تاراج کئے اور سروں کو اچھالا۔ اپنے کئے کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ بولو ۔ بولو۔ میں نے اس کی پگڑی کی گرہ کھولتے ہوئے کہا۔
خبیث روح۔ ہماری تذلیل سے تمہیں کیا حاصل ہوگا۔ سفید درویش والے نے کہا۔ تم سنو۔ تمہیں فرعون کہلانے کا بڑ ا شوق تھا۔ امارت کا ہر جا مظاہرہ کرتے تھے اور تو اور تم نے اپنے مقبرے بنانے کیلئے ہزاروں انسانوں سے جبری شفقت لی۔ انہیں ذلیل کیا اور بہت سے تمہارے اس شوق کے ہاتھوں راہی ملک عدم ہوئے۔ تم کہو۔ میاں مٹھو۔
میں بادشاہ ہوں۔اور یہ ملک محبت میرا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں میرے پیرو کار پائے جاتے ہیں۔ محبت کرنے والے عشاق۔ سادہ اور معصوم ۔ جنہیں تمہاری خطر ناک دنیا نے کبھی بھی آسودہ حال نہیں رہنے دیا۔ ہر ملک میں ایک ہی کہانی ہے۔ محبت۔ محبت۔ محبت ۔ بس کرداروں کے نام بدل جاتے ہیں۔
میں زمین پر صرف ایک بار گیا تھا۔ آ ب حیات پینے۔ اور بس اس کے بعد اس کرہ پر موجود ہوں۔ اور صدیوں سے تمہارا منتظر۔ مجھے یقین تھا کہ تم آئو گے۔
تمہیں کیسے معلوم ہے کہ ہم آئیںگے۔ بس تم نہیں جا نتے۔ جو میں جانتاہوں۔ ٹھیک ہے تم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔ اب تو ہمیں رہائی دے دو۔ بس ابھی پہلی منزل پر ہی بکھر رہے ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ تمہیں ابھی اور کتنی سزا ملے گی۔
سزا نہیں۔ نہیں۔ ۔۔ آپ ہمیں رہا کردیں۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ تم یہاں سے میری مرضی کے بغیر کیسے جاسکتے ہو۔
چلو ۔ رچرڈ۔ میں تمہاری زنجیریں کھولتا ہوں۔ دیکھتا ہوں تم کیا کرتے ہو۔ میں رچرڈ نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔ میں۔ میں کیا کروں گا۔ بس بیٹھارہوں گا۔ نچلا بیٹھے رہنا تمہاری فطرت کے خلاف ہے۔ جائو اس مملکت میں تمہیں آزادی ہے۔ لوگوں کو ور غلائو۔ سازشیں کرو۔ اور۔۔ توسیع مملکت کے خواب دیکھو۔
تم چنگیز خان ۔ تم بھی آزاد کر دیئے گئے ہو۔ تم بھی اپنی قسمت آزمائو۔ لیکن ٹھہرو پہلے تمہیں پگڑی کور رچرڈ کے سر پر باندھنا ہوگا۔ رچرڈ۔ آئو میں تمہیں پگڑی باندھ دوں۔ تاکہ حکم پورا ہو۔ اور پھر ۔پھر کیا سنو۔ تم یہاںجنگ و جدال کرو۔ اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر ہوا سے لڑو۔ اور تم فرعون صاحب ۔ یہاں سانپوں کی مورتیں بنائو۔ اپنے دیوی دیوتائوں کو بھینٹ دو۔ بڑے بڑے مقبرے بنائو۔ تمہیں بھی آزادی ہے۔
کیاہم تینوں یہ یہاں گھومیں گے۔
ہاں اور کیا۔ تمہارے جیسے اور کہاں سے لائوں۔۔ بادشاہ سلامت! ہم جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے۔ کہاں۔ جہاں سے ہم آئے ہیں۔ اچھا تم ہی بتلائو ۔ کہ جانے والے کچھ زادِ راہ لے جاتے ہیں یا نہیں۔ ہم تمہیں کچھ دے کرروانہ کر دیں گے۔ فی الحال تمہیں یہیں رہنا ہے۔ جائو ۔ چلو۔ ورنہ الٹا لٹکا دونگا۔ اور سنو۔ یہ مت بھولنا کہ تم کسی بھی وقت ہماری نگاہ سے اوجھل ہو سکتے ہو۔ چنگیزوں نے کہا۔ ہم سب جاتے ہیں مگر کھائیں گے کیا۔ کھانا۔ یہاں نہ گندم ہوتی ہے نہ پھل وغیرہ۔ پھر ہم کیا کھائیں گے۔ فرعون نے روتی شکل بنا تے ہوئے کہا۔ وہی جو ہم کھاتے ہیں۔ یعنی ہوا کھائو۔ یا خیالی پلائو پکائو۔
جناب عالی: رچرڈ نے مؤدب ہو کر کہا۔ کھانا انسان کی فطرت اور ضرورت ہے۔ ہاں جب انسان ہے تو فطرت بھی اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ کیا تم ابھی تک انسان ہو۔ ہم انسان ہیں۔ چنگیز خان نے کہا۔ اچھا کیاانسان وہ بھی ہے جو درندوں کی طرح سے انسانوںکو چیر پھاڑ دے۔ تم سب حیوان ہو۔ اپنی انا کے پجاری۔ مطلق العنان۔ ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر ۔ تم نے انسان ہو کر انسانوں کی تذلیل کی۔ انہیں اپنا غلام بنایا ۔ ہر ظلم ان پر روا رکھا۔ عورتیں،بچے، پیرو جوان سب پرتم نے ظلم کیا۔ اور پھر اپنا پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ اپنے آپ کو منوایا۔ بولو۔ جواب دو۔ ہم تمہیں کھانے کو دہی دیں گے جوہم کھاتے ہیں۔ یہاں تمہیں بھوک نہیں ستائے گی۔ چاہے جسمانی ہو یا حیوانی ہو۔ سمجھے۔ رات آئیگی تو تمہیں کھانے کو ملے گا۔ راتوںکو جاگنا اور دن کو سونا۔ یہاں تمہیں یہ نعمت ملے گی۔ بس۔ ذرا رات آنکھوں میں بتانا۔ اخترشماری کرنا۔ کبھی ستاروں کو پیغام دینا۔ کبھی چندا سے سلام کہنا۔ کبھی خود سے بات کرنا۔ کبھی اسے یاد کرنا۔ یہاں یہی سب کچھ ہے۔ یہاں رت جگے ہیں اور وصل کی نا آسودہ خواہشیں۔
مگر ہم ہیں کہاں۔
میں نے تمہیں پہلے بھی بتلایا کہ ملک محبت میں ہو۔ ملک محبت تمام کرہ ارض پر پھیلا ہوا ہے۔ ہم عاشق وہاں رہتے ہیں۔ جہاں دوسرے نہیں رہتے۔ بیا باں جنگل ، ویرانے، صحرا ہمارا مسکن ہیں۔ تمہیں یہاں کچھ سکھلانے کے لئے بلایا گیا ہے۔
ہمیں اغو ا کیا گیا ہے۔ میں اپنے محل میں شراب ارغوانی کے مزلے لے رہا تھا کہ اچانک ایک سفید دھوئیں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ فرعون نے کہا۔ میں دریائے جیحوں کے کنارے کا دودھ پی رہا تھا اور اپنی آئندہ فتو حات کا نقشہ ترتیب دے رہا تھا کہ مجھے بھی ایک سفید دھوئیں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
میں دریائے ٹیمز کے کنارے اپنی کشتنی میں اپنی محبوبہ کے خطوط پڑھ رہا تھا کہ سفید دھوئیں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ تم سب سفید دھوئیں کے شکار ہو۔ مگر یہاں آکر بھی تمہارا دبدبہ ، غرور، تمکنت کچھ بھی سرد نہ ہوا۔ سنو۔ یہاں تمہیں لایا گیا ہے۔ ادھر دیکھو۔ اس صحرا میں لاکھوں عشاق جمع ہیں۔ ہر شخص اپنے حال میں مست ہے۔ کہاں کی بات کر رہے ہیں آپ ظل سبحانی ۔ یہاں تو کوئی نہیں چڑیا کا بچہ تک دکھائی نہیں دے رہا۔ غور سے دیکھو۔ سامنے انبوہِ عاشقاں ہے۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ غور سے دیکھو۔
غور سے تو ہم نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں۔ وجہ۔ بس یونہی۔ اب پھردیکھو۔ ارے یہ کیا۔ اتنے سارے لوگ ہاہا ہا۔ اب ہم ان سے رہ لیں گے۔ ان سے باتیں کریں گے۔ ان کے ساتھ کھائیں گے۔ان سے کچھ پوچھیں گے اور۔۔ تم اپنی یہ حسرت بھی پوری کر لو۔ میرے یہ ساتھی۔ بر ہنہ پا۔ چاک گریباں الجھے ہوئے بالوں والے بس اپنی دنیا کے اسیر ہیں۔ انہوں نے تو کبھی دنیا سے بات نہیں کی۔ تم سے کیا کریں گے۔ یہ بس اپنے حال میں مست ہیں۔
میں ان سے بات کرتا ہوں ۔ رچرڈ ۔ کہتے ہوئے آگے بڑھا۔ ایک شخص کا کاندھا ہلا کر بولا۔ بھائی۔ میں بادشاہ انگلستان کاہوں۔ میں رومیوں ہوں۔ بادشاہ انگلستان کیا چیز ہے۔ بھائی میں چنگیز خان تاتاری ہوں۔ میں وامق ہوں۔ میں کسی چنگیز خان کو نہیں جانتا۔
بھائی میں فرعون ہوں۔ اہرامِ مصر والا۔ بادشاہوں کا بادشاہ۔ میں مجنوں ہوں۔ نجد والا۔ میںکسی فرعون کو نہیں جانتا۔ کمال ہے دنیا کی تاریخ ہمارے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ تم سب ہم سے ناواقف ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تاریخ تمہارے ظلم کی گواہ ہے۔ تم نے جھوٹی کتابیں لکھی ہیں۔ ہم نے سچی باتیں دلوں پر رقم کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ذکر سینہ بہ سینہ آیا ہے۔ ہر شخص پورے کرئہ ارض پر کسی نہ کسی عاشق کا ذکر محبت سے کرتا ہے اورتمہار ا ذکر نفرت سے کرتا ہے۔
محبت اور نفرت ۔ دو متضاد چیزیں ہیں۔ دن اور رات ہیں۔ ندی کے دو کنارے ہیں۔ چاندا ور سورج ہیں۔ گرمی اور سردی ہیں۔ خزاں و بہار ہیں۔ پھول اور کانٹے ہیں۔ متضاد چیزیں ہی آپس میں ربط رکھتی ہیں۔ شریر شیطانوں۔ تم آپس میں فیصلہ کر لو۔ اس کرہ محبت پر گھوم پھر کر دیکھ لو۔ ان عشاقِ زمانہ سے ملو ۔ اب کچھ اور ان سے سنو۔
ہاں بھئی رومیو۔ جولیٹ کیسے سرکار۔ وامق ۔ تم ۔۔۔ میں عذرا ہوں۔ لیلیٰ لیلیٰ۔۔۔۔۔۔
کیا تم یہ سب کچھ بننا پسند کروگے۔ ہاں ۔ تینوں نے یک آواز ہو کر کہا۔
تو پھر ۔ تمہیں کرہ ارض پر دوبارہ اتارتے ہیں۔ وہاں تم کیا کرو گے۔ یہ دیکھتے ہیں۔ آپ سرکار ہمیں کیسے دیکھیں گے۔ دیدہ بنیا سے۔
دیدہ بینا کیا کوئی طلسمی آئینہ ہے۔ چنگیز خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ہر طلسم انسان سے خوف کھاتا ہے۔ اور ناپائیدار ہوتا ہے۔ تمہیں اس کا اندازہ ہے فرعون صاحب۔ بادشاہت کا ہر لمحہ طلسم ہوتا ہے۔ اور غریب کاہر لمحہ۔ عذاب۔ رچرڈنے کہا ۔ تو یہ طے ہے کہ دنیا عذاب خانہ ہے۔ نہیں پھر کیا ہے۔ طلسم ہے سراسر ظلم۔ تو پھر اسم اعظم کیا ہے۔ محبت ۔محبت۔ محبت۔ اب بولو۔ تمہیں نفرت مطلوب ہے یا محبت۔ پہلے کچھ کھانے کو ملے ،پیٹ بھرے، تو پھربتلائیں گے۔
میں نے پہلے ہی تمہیں بتلا دیاہے کہ یہاں پیٹ بھر نے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں کسی کو کوئی بھی بھوک نہیں لگتی۔ بھوک ہی انسان کو ظالم ، خون خوار اور درندہ بناتی ہے۔ یہاں۔ سب طالب ہیں۔ اور مطلوب کے طلبگار بھو ک، غربت، پریشانی ، فکر، مستی، سازشیں، چالبازیاں ، فطرت سے بغاوت اور انا پرستی دنیا کے مظاہرہیں۔ یہ سب باتیںدنیا کے لئے ہیں۔ تارک الدنیا ہو جاتے ہیں۔ وہ دیدہ بینا سے ہر شے کی حقیقت جان لیتے ہیں۔ جائو ہم نے تمہارے دلوں کو گداز بخش دیا ہے۔ اب اپنے دھڑکتے دلوں کی صدا سنو۔
ہمارے دل ہمارے قابو میں نہیں ہیں۔ بلیوں اچھل رہے ہیں۔ ہمارے جسم فرحت محسوس کر رہے ہیں۔ اور اک نئی خواہش جنم لے رہی ہے۔ کیا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ یہیں بس جائوں۔ دنیا سے میں بھر پایا۔ فرعون نے کہا۔ میرا دل سکون کی عزت سے آشنا ہوا ہے۔ پیاسی اور بے کل روح کو قرار مل رہا ہے۔ چنگیز خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں خوشی سے پاگل ہو جائونگا۔ فرحت، مسرت اور سکون۔ واللہ کیا بات ہے۔ تم نے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی ہے۔ اب جائو دنیا تمہاری منتظر ہے۔ وہاں محبت کوفروغ دینا۔ نہیں۔ ہم دنیا کی طرف نہیں جائیں گے۔ توپھر حکم عدولی کی سزا سنو۔ کہکشاں کے درمیان گردش کرتے رہو۔ کہکشاں کے درمیان گردش کرتے ہوئے فرعون، چنگیز خان اور رچرڈ نے دیکھا کہ سفید دھواں زمین کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہ تینوں چلا رہے تھے۔ محبت کرنے والے اور آئیں گے فلاح پائیں گے۔ ہم گردش کرتے کرتے دُم دار ستارے بن جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...