خاصہ دار خان کی تعیناتی حرم سرا میں ظل سبحانی کی عین منشا و مرضی کے مطابق کی گئی تھی۔ خاصہ دار خان ظل سبحانی تاجدارِ ہند کا خاص الخاص معتبر آدمی تھا۔ حرم سرا کی حفاظت خاصہ دار کے ذمہ تھی۔ خاصہ دار خان کا باپ کون تھا۔ قبیلہ کیا تھا۔ ماں کون تھی۔ بھائی بہن کون تھے اس کا پتہ تو خاصہ دار خان کو بھی نہیں تھا۔ اسے بس یہ پتہ تھا کہ وہ محل میں ہی پل کر جوان ہو ا تھا اور اس کے گرو خان صاحب فخر حرم سرا مرزا تو فیق جانی نے اسے پالا پوسا تھا۔ اس کا ایک ہی جواب ہوتا۔ محل سرا میں پلنے والے محلاتی ہوتے ہیں۔ اور ان کی زندگی اور مقصد و محور محلات کی حفاظت اور نگہداشت اور خدمت ہوتی ہے۔ خاصہ دار خان ظل سبحانی کے بچپن کا ساتھی تھا۔ ظل سبحانی کے ساتھ ہی پل کر جوان ہوا تھا۔ اس کی جوانی بھی، ظل سبحانی کی خدمت کرتے گزرتے تھی۔ ظل سبحانی کے حکم کے مطابق جزا سزا کو اس جیسا اچھا سچا اور فرمانبردار میسر نہیں آسکتا تھا۔ خاصہ دار خان بلا کازیرک اور چالا ک بھی تھا۔ بہت سے معاملات کو بہت جلد بھانپ لیتا تھا۔ ظل سبحانی کے تخت اور تاج چلانے میں خاصہ دار کا بڑا ہا تھ تھا۔ جس شب شہزادے نے ظل سبحانی بننے کا ارادہ کیا تھا۔ اُسی رات خاصہ دارخان کے صحت مند و توانا ہاتھوں نے تاجدار ِ ہند کا گلا دبا دیا تھا اور اپنے ہاتھوں سے ظل سبحانی کو تاج پہنا کر مبارک باد کا شور اٹھایا تھا۔ شاہ عالم نے اس روز خوش ہو کر خاصہ دار کو پوری تحصیل بخش دی تھی۔ اور حرم سرا کا مہتمم خاص بھی مقرر کر دیا تھا۔ وہ دن تھااور آج کا دن کہ حرم سرا کی حدود میں خاصہ دار خان کے حکم کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ خاصہ دار خان حسب معمول اپنی چوکی پر چوکس بیٹھا ہوا تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے حرم کے آخری حصے میں کچھ ہلچل سی ہے۔ رات کا وقت تھا۔ کافوری شمعیں جل رہی تھیں۔ حرم سرا بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ باندیاں داشتائیں اور تمام منظورِ نظر ہستیاں محو خواب تھیں۔ خاصہ دار خان نے کمربند سے تلوار نکالی اور حرم سرا کے آخر حصے کی طرف چل دیا۔ خاصہ دار خان کی چھٹی حس اسے خطرے سے آگاہ کر رہی تھی۔ اس کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو چکی تھی اور شکار کی تلاش میں اس کی آنکھوں میں چمک عود کر آئی تھی۔ وہ دبے پائوں بڑھتا رہا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ دو چار ہیولے اِدھر اُدھر جا رہے تھے ۔ ان کے جسم کسے ہوئے اور توانا تھے۔ خاصہ دار خان کو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ اس کے اتنے اچھے انتظامات کے با وجود یہ لوگ محل کے حصہ خاص تک کیسے آگئے ہیں۔ کیا بغاوت ہو گئی ہے۔ یا کسی شاہزادے نے پھر آج ہوس اقتدار میں کوئی کھیل رچا دیا ہے۔ کیا ساری فضا مسموم ہو گئی ہے۔ تمام ہیولے ایک ایک کر کے ایک کمرے میں جمع ہو گئے۔ دبے پائو ں خاصہ دار خان بھی اس کمرے کے پاس پہنچ گیا ۔ اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔
سنو شکنتلا۔ خاصہ دار خان کی موجودگی میں ظل سبحانی کا خاتمہ مشکل ہے۔ انار کلی نے ظل سبحانی کو اپنے نازوانداز سے اتنی شراب پلا دی ہے کہ وہ انٹا غفیل ہو رہے ہیں۔ تمہارے ہاتھ بہت توانا ہیں سندھور! ہمت سے کام لو۔ آج اگر تم نے کارنامہ دکھا دیا تو میں ظل سبحانی سے کہہ کر تمہیں صوبے دار بنوادوں گی۔ محل سرا میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔
شکنتلا۔ تم تو ملکہ بن جائو گی۔ ہمارا کیا ہوگا۔
تم ہند کے سب سے بڑے آدمی بن جائوگے۔ میں تمہارے بغیر کیسے زندگی کا لطف اٹھائوں گی۔ تم میرے خاص آدمی ہو۔ ہمت کرو۔ وقت کم ہے۔ رات بیت رہی ہے۔ کچھ دیر بعد شکنتلا کا محبوب ظل سبحانی ہند تاج پوشی کے لئے کمرے میں آنے والا ہے۔ جائو سندھور جائو۔ اپنے توانا اور مضبوط ہاتھوں کو حرکت میں لائو۔ تاج شہی ان ہاتھوں سے ہی ظل سبحانی کے سر پر رکھنا ہے۔
چمپا اور چمیلی ابھی جا کر خاصہ دار خان کو میری علالت کی خبر دیں گی۔ وہ اس طرف آئیگا ۔ تم اتنی دیر میں مدہوش اور غافل تاجدارِ ہند کی گردن دبا دینا۔ آنکھیں حلقوم سے باہر نکلی ہوں۔ تاکہ دیکھنے والے ششدر رہ جائیں۔ ملکہ ہندکی جانب سے چمپا اور چمیلی اٹھو اور ہمارے شہ روز سندھو رو کو جام جشن فتح سے نوازا جائے۔
یہ سنتے ہی خاصہ دار خان اپنی جگہ چھوڑ کر چوکی میں آکے بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد چمپا اور چمیلی اس کے سامنے تھیں اور اسے شکنتلا کی بیماری کا بتلا رہی تھیں۔ خاصہ دار خان نے ان کی بات سن کر کہا۔
چمپا اور چمیلی ۔ البیلی جوانیو۔ جائو تمہیں کوئی نہیں روکے گا حکیم بڈھن کے یہاں جائو اور انہیں بلا لائو۔ میں ذرا آرام کرونگا۔ نیند بہت ستا رہی ہے ۔ جائو۔ شاباش۔
چمپا اور چمیلی چلی گئیں۔ خاصہ دار خان نے جھوٹ موٹ کے خراٹے لینا شروع کر دیئے۔ تھو ڑی ہی دیر بعد کمرہ شاہی میں سندھور داخل ہو چکا تھا۔ خاصہ دار خان بھی دبے پائوں اس کے پیچھے تھا۔ سندھور نے ظل سبحانی کے گلے میں اپنے ہاتھ ہی ڈالنے چاہے خاصہ دار خان نے تلوار کے ایک ہی وار سے سندھور کا سر جدا کر دیا۔
شاباش خاصہ دار خان ۔ حق نمک ادا کر دیا تخت شاہی کے دشمنوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ خاصہ دار خان نے چونک کر دیکھا۔ ظل سبحانی اس کے سامنے تھے۔ امور جانبانی میں مستعداور ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ خاصہ دار امورِ سلطنت بوڑھے ہاتھوں سے انجام نہیں پاتے۔
خاصہ دار خا ن ،کافور زنگی! تمہیں حرم سرا کا مہتمم اعلیٰ مقرر کیا جاتا ہے۔ صبح سویرے سندھور کاسر فصیل قلعہ پر ٹانگ دیئے جائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭