بابو جی۔ پانی ڈال دوں یا مٹکے کو آپ صاف کریں گے۔
مٹکا صاف ہے گلو بادشاہ آپ پانی ڈال دیں۔ بابو جی۔ میں نے اپنی بات کہہ دی۔ پانی ڈال دیا ہے۔ اچھا اللہ مالک ہے۔ سنو گلو بادشاہ ہم چھڑوں کے پاس صرف چائے ہے حاضر کروں۔
تم کتنے اچھے ہو بابو جی۔ تمہاری چائے مزہ د ے گی۔ ان سار ے کوارٹروں میں بس ایک تمہاری چائے ہے اور تم سے پہلے مدن لال کی چائے ہی ہماری زندگی ہے۔ کوئی خلوص اور چاہت سے پلائے تو اور مزہ دیتی ہے۔
بابو جی۔ نہ جانے کیا بات ہے آج چالیس، برس ہونے کو آئے۔ اس کوارٹر کی قسمت میں چھڑے ہی ہیں۔ مدن لال بھی چھڑا ہی ہے۔ گلو بادشاہ ہم تو پیدائشی چھڑے ہیں۔ اور تاحیات چھڑے ہی رہیں گے۔ کون گھر بار کا جھنجھٹ پالے۔ بابو جی۔ ۔۔ نہیں۔۔۔ آپ بھی گھر گھر ہستی والے ہوں گے۔ میرادل کہتا ہے ۔ گلو بادشاہ یہ گھر گھر ہستی کیا چیز ہے۔ تمہیں پانی بھرتے دیکھتا ہوں تو تو بہ کرتا ہوں۔
واہ بابو جی۔ جب۔۔ میں تو رزق حلا ل کیلئے پانی بھرتا ہوں۔ رزق حلا ل کیلئے۔ ہاں۔ گلو بادشاہ مجھے پتہ ہے۔ تمہاری اچھی خاصی نوکری ہے اور وہ بھی سرکاری۔
بابو جی۔ پچھلے چالیس سال سے رزق حلال کمایا ہے۔ مدن لال بڑا اچھا آدمی تھا۔وہ اکثر پوچھتا تھا۔ گلو بادشاہ یہ رزق حلال کے کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ مرد کو کمانا چاہئے ۔ بس کمائو اور کھائو۔
بابو جی۔ میں اس سے بھی کہتا تھا۔ دیوان تم کیا جانو۔ کیا مزہ ہے رزق حلال میں۔ آدمی بیماریوں سے دور۔ اور روکھی سوکھی میں جومزہ ہے وہ حلوے پلائو میں نہیں ہے۔ مدن لال ہنستا تھا اور وہ سب سے کہتا تھا۔ یہ ہے گلو بادشاہ رزق حلال۔ گلو بادشاہ یہ لو چائے پیو۔
بابو جی۔ چائے تو پیوں گا پر ایک بات آپ سے پوچھنی ہے۔ رزق حلال کمانا جرم ہے؟ کس نے کہا۔ میں نے بے ساختہ سوال کیا۔آج صبح ہی صبح مقبول کی ماں نے مجھے طعنہ دیا ہے۔ گلو گھر میں میں خرچ بڑھ گیا ہے۔ بہت تنگی ہوگئی ہے۔ تمہارے پیسوں سے اب گزر مشکل ہو گئی ہے۔ ہم لوگ اب زیادہ دکھ نہیں دیکھیں گے اور مقبول کہہ رہا تھا کہ اب وہ خود کمائے گا ۔ کیا کرے گا مقبول۔ جو اس کا دل کریگا ۔ نیک بخت ۔ میں مقبول کو بھی نوکری دلا دونگا۔
ارے بس کر گلو۔ تم نے نوکری کر کے ہمیں بھی بہت ہی خوش رکھا ہے۔ یہ چار پانچ سو کی نوکری کیا کریگی۔ میں نے اس نوکری میں زندگی گزار دی ہے۔ تم بھی صبر شکر سے گزا ر دو مقبول کی ماں۔ زندگی اور کتنی ہے گزار لو۔ ار ے میاں۔ تم تو آدھے راستے کے آدمی ہو۔ روز ڈانگری پہن کے چلے جاتو ہو۔ شام کو لوگوں کا پانی بھرتے پھرتے ہو۔
تمہیں کیا ہماری حالت کیاہے؟ بھوک ہماری آنتوں میں جم گئی ہے۔
دیکھ مقبول کی ماں۔ رزق حلا ل کمانا بھی عبادت ہے۔ اور کھانا بھی۔ اللہ کا شکر ادا کرو۔
بابو جی۔ مقبول کی ماں نے غصہ میں مجھے دھکا دے کر گرا دیا، میرا یہ موٹے شیشوں والا چشمہ دور جا گرا۔
بابو جی۔ مقبول بھی اپنی ماں کی حمایت میں بولنے لگا۔ اور ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا گلو بادشاہ رزق حلال۔
بابو جی۔ تم مجھے بتلائو ۔ ایسا کیوں ہوا۔ میں نے سب کو رزق حلا ل کما کر کھلایا۔ یہ لوگ اب مجھے دھکے اور گالیاں دیتے ہیں ۔ ہنستے ہیں مجھے پر۔
گلو بادشاہ تم عظیم آدمی ہو۔ یہ نادان چند دن بعد خود سدھر جائیں گے۔ بابو جی۔ نہیں۔ یہ کہاں سدھریں گے ۔ مقبول اب اپنی ماں سے کہتا ہے اماں۔ یہ شیدی (حبشی) اب حوروں کا طلب گار ہے۔ تمہاری جیسی کالی عورتیں اسے کہاں بھائیں گی۔ اور تو اور بابو جی وہ زینو ۔ جس نے میرے ساتھ پچاس سال گزارے ہیں۔ وہ بھی مجھ سے لڑنے جھگڑنے لگی ہے۔ بات بات پہ طعنے دینے لگی ہے۔ مجھے کام چور ، نکما ، سست اور ملا روٹی توڑ کہنے لگی ہے۔ بابو جی۔ یہ میرے کاندھے کے نشان دیکھو۔ چالیس سال کی مشقت نے میرے کاندھوں کا کیا حال کیا ہے۔ یہ دیکھو۔ گلو بادشاہ تم سچے اور سیدھے آدمی ہو۔ صبر کرو۔ اللہ اچھا کریگا۔
بابو جی۔ اللہ تو اچھا کریگا مگر انسانوں کا کیا کروں۔ کہاں جائوں۔ میرے اپنے میرے پیارے میرے دشمن ہو گئے ہیں۔ میں اگر نماز پڑھتا ہوں۔ پانی بھرتا ہوں اور نوکری ایمانداری سے کرتا ہوں تو کیا جرم کرتا ہوں۔ مجرم ہوں نہیں نہیں۔ گلو بادشاہ تمہیں سب احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پھر یہ میرے پیارے ۔ ان کوکیا ہو گیا ہے۔
ہاں۔ بات تو تمہاری صحیح ہے ۔ نادان ہیں۔ سب سمجھ جائیں گے۔
بابو جی۔ یہ نہیں جانتے کہ سندھ میں ڈاکو اپنا نام “گلو گورنمنٹ”رکھ لیتے ہیں تو کیا شریف آدمی اپنا نام گلو بادشاہ نہیں بن سکتا۔ گلو بادشاہ۔ تم نے اپنا نام گلو بادشاہ کیوں رکھا۔
بابو جی۔ جب اللہ بادشاہ ہے تو اللہ کا غلام گلو بادشاہ نہیں ہو سکتا؟ ہاں! یہی سچ ہے۔
بابو جی۔ میں یہ سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں کہ رزق حلال میں کوئی طاقت نہیں؟ شرافت امانت اور دیانت میں کوئی خوشی نہیں۔ میری چالیس سال کی محنت برباد کیوں ہو گئی ہے۔
مقبول کی ماں کہتی ہے گلو چریا ہے۔ بے وقوف ہے اور مقبول کہتا ہے کہ ابا۔۔ بس پانی ہی بھر سکتا ہے۔ ہمارا پیٹ نہیںبھرتا ۔ کیا کوئی انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے ۔ یہ خدائی کام بندہ کرسکتا ہے۔ مخلوق خالق کی ہمسری کر سکتی ہے۔ گلو بادشاہ ۔ میں بھی پریشان اور حیران ہوں۔ انسان اپنے مفاد کے لیے کیا کیا نہیں کرتا۔ بال بچے۔ دولت دنیا داری۔ گلو دنیا داری سراسر ٹھگی اور فریب ہے۔ گلو بادشاہ ۔ سچ ہے۔ سچ ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
بابو جی۔ میں جانتا ہوں کہ میری رفیقہ حیات اور مقبول دونوں کو دنیاداری نے جکڑ لیا ہے۔ شیطان مجھے ان کے ہاتھوں ذلیل کرتا ہے۔ آپ محرم سپاہی کو جانتے ہیں؟ میرے گھر کے ساتھ اس کا گھر ہے۔ جب تک پولیس میں رہا مال بنانے کی فکر میں رہا۔ اب جب مال بنانے کی وجہ سے بر خاست ہو گیا ہے۔ تو ۔ مال کمانے کی تمنا میں انسانیت کو پامال کرنے لگا ہے۔ اور خوب شراب بیچ رہا ہے۔ ۔ مسجد کی دکان میں شراب بیچ رہا تھا۔ میں نے منع کیا تو کہنے لگا۔
گلو بادشاہ۔ اپنے گھر کی فکر کرو۔۔۔ تم تو مسجد میں بیٹھے رہتے ہو اور تمہارا بیٹا ڈرموں کے ڈرم شراب بیچ رہاہے۔ جائو جا کر۔۔۔
ظلم تو دیکھو۔ مجھ غریب کے کچے مکان میں شراب کی بھٹی میرے بیٹے نے لگائی ہے۔ زینو اپنے بیٹے کی طرفداری کی ہے۔ مجھے بتلائو ۔ میں کیا کروں۔۔۔ گلو بادشاہ تم سیدھے راستے پر چلتے رہو۔ بابو جی۔ زینو اور مقبول کہتے ہیں کہ آدھے راستے کا آدمی ہوں۔ جس کو صرف شرافت، دیانت، امانت اوررزق حلال کا ہی پتہ ہے ایسے راستے پر چلانا چاہتے ہیں جس پر شریف اور اچھا انسان کبھی چلنا پسند نہ کرے۔
بابو جی۔ جب شیطان نے میرے پیاروں پر گرفت مضبوط کر ہی لی ہے تو پھر رحمان کے بندے کیلئے ایک ہی راستہ ہے۔ یہ میرے پانی بھرنے کے ڈول میر ے گھر پہنچا دیجئے۔ میں نے اپنا راستہ پالیا ہے۔ میں اس دربار کی طرف چلا جائونگا جہاں بلال حبشی کی کبھی آواز گونجتی تھی۔
اچھا چلو گلو بادشاہ ۔ آدھا راستہ تم نے طے کیا ہے اور آدھا راستہ ابھی باقی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭