ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔ صدر: راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی جے پور
افسانہ اور حقیقت !!چونکئے نہیں۔ میں داستان والے افسانے کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس افسانے کی بات کر رہا ہوں جس نے اردو ادب کو ایک سچا آئینہ دکھایا اور سماجی زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔ سماجی مسائل کو جس خوبصورتی سے اردو افسانے نے اجاگر کیا ہے وہ کوئی اور صنف ادب اجاگر نہ کر سکی۔ میرے پیش نظر امین جالندھری صاحب کا افسانوی مجموعہ”حرف حرف کہانی” ہے جس میں ۱۹ افسانے شامل ہیں۔ امین جالندھری صاحب صوبائے سندھ میں ایک جانی مانی ادبی شخصیت ہیں۔ ادبی ذوق تو گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ نثر نگاری میں خاص طور پر افسانہ نگاری میں ان کو مکمل دسترس ہے۔ سبھی افسانے مختصر لیکن پر اثر ہیں۔ ان کے کردار سیدھے سادے لیکن ہمارے ارد گرد رہنے والے ہیں۔ امین جالندھری کے افسانوں میں زیادہ گھمائو پھرائو یعنی پیچیدگی نہیں ہے۔ وہ بڑی آسانی سے اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ تمام افسانوں میں مقامی رنگ نمایاں ہے۔ کیونکہ انھوں نے جو کچھ پیش کیاہے وہ معاشرے سے ہی لیا ہے۔
پہلا افسانہ “محشر خیال “ہے جس میں ایک ایسے شاطر مسخرے کو پیش کیا ہے جو بادشاہوں کا مزاج شناس ہے وہ جانتا ہے کہ بادشاہ کیسی باتوں کو پسند کرتے ہیں یا ان کی خوشامد کس طرح کی جاتی ہے۔ افسانہ “مستی” مجھے بہت پسند آیا۔ اس کا ماحول میں اپنے ارد گرد محسوس کرتا ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات میں روزانہ ہی دیکھتا ہوں۔ “رہائی” نامی افسانے میں انھوں نے سماج کی ایک کڑوی حقیقت کو بتانے کی کوشش کی ہے، بلکہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ اہل زر کس طرح اپنے محکوم لوگوں کا استحصال کر تے ہیں، انھیں طرح طرح کی لالچ دے کر، احسان کر کے ان کی عزت سے کھیلتے ہیں۔ سائیں ، جو عرض محمد کا پرانا خادم ہے اپنے بیٹے کو پولیس میں بھرتے کروانے کی سفارش کرنے کیلئے عرض محمد سے کہتا ہے۔ جس کے بدلے میں عرض محمد کہتا ہے کہ اس میں لاکھوں روپے خرچ ہوں گے، آخر میں وہ کہتا ہے کہ تم اپنی حسن زادی کو رات کو حویلی بھیج دینا ۔ یہ واقعات انو کھے یا عقل سے بعید نہیں ہیں۔ بلکہ آج ہر سماج میں ایسا ہوتا ہے۔ میں امین جالندھری صاحب کو اتنے خوبصورت افسانے لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...