ڈاکٹر معین الدین شاہین ؔ اجمیری ۔ ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو ، سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج
اجمیر۔ راجستھان (ہندوستان)
امین جالندھری دنیائے اردو ادب میں ایک ایسے صاحب قلم کی حیثیت رکھتے سے مشہور و مقبول ہیں جو نہ صرف وقت کی نبض ٹٹولنے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ مداوا کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ عہد حاضر میں بر صغیر میں جو انشا پرداز اپنی فکرِ رسا کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہیں ان میں امین جالندھری بھی پابہ رکاب نظر آتے ہیں۔ ماضی قریب میں ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بہ عنوان”حرف حرف روشنی” منظر عام پر آکر ادبی حلقوں میں حسن قبول کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ فی الوقت ان کے افسانوںکے نا بالغ بچوں یعنی افسانچوں کا مجموعہ حرف حرف کہانی راقم کے پیش نظر ہے جس کی ورق گردانی کے بعد خوش گوار تاثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس مجموعے میں جو افسانچے شامل اشاعت ہیں ان کے عنوانات اس طرح ہیں۔ (محشر خیال، مستی، خمار، چک گ ب45، موڑ، بلند پروازی، آگ، بول میری مچھلی، مسافر، شو ٹائم، درد کی زنجیر، رہائی ، ایک دن کی بات، کامیاب، تجربہ، التجا، پاور، محاسبہ، اور ہنی مون)۔ یہ تمام افسانوی بچے سنت کبیر کی زبانی دیکھن میں چھوٹے لگیں ، گھائو کریں گھمبیر۔ کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اہل پنجاب فراخ دل اور مرد رعنا ثابت ہوتے ہیں تاہم امین جالندھری کی تحریریں ان کی کشادہ دلی اور ادب سے جذباتیت کی حد تک وابستگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ زیر نظر مجموعے کی تخلیقات کا مشاہدہ کرتے وقت قدم قدم پر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا جذبات انسانی کا دھارا پنجاب کی پانچ ندیوں کی طرح منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ اس بابت زیر نظر مجموعے سے دو چار مثالیں ملاحظہ فر ما لیجیے۔ (الف) دیکھیے۔۔۔۔ انھوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہم دونوں فضا میں بلند ہو رہے ہیں اوپر جا کر دیکھا تو شہر کی عمارتیں چھوٹی چھوٹی نظر آرہی تھیں۔ ہمرے ہمراہی نے کہا۔ حافظ صاحب دیکھیے۔۔۔ یہ شہر ایک شاندار مسجد سے محروم ہے اور اب یہ سعادت آپ کے حصے میں آئی ہے کہ بلند و بالا عالی شان مسجد آپ کے ہاتھوں تیار ہو او ر وہ سامنے میدان دیکھو۔۔۔۔ جہاں مسجد کی تعمیر کرنی ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے ہمارا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔ ۔ اور یوں ہماری آنکھ کھل گئی۔ (محشر خیال سے اخذ)۔ (ب)۔ ارے پاپیو! جہاں دریا ہو۔کھیت کھلیان بنجر ہوں۔ لوگ پاپ میں سنے ہوئے ہوں۔ ۔۔۔ دھن دولت کی چوہا دوڑ ہو۔ ۔۔ وہاں۔۔۔۔ تم دو خانہ بدوش کیا انقلاب لا ئوگے۔ اپنی موت خود مر جائو گے۔ درد کی زنجیر ہلانے والے خود شراب پی کے سوتے ہوں۔ وہاں راتوں کو جشن منانے پر کیسی پابندی۔ ۔۔ ہاں مجھے نہیں پتہ کہ اگلے پڑائوپر تم پہنچو گے کہ نہیں۔۔۔ لو گلشن کی طرف سے شراب پیو۔ اور جیو۔۔۔ یہ مت کہنا کہ سالی نے کچھ ملانہ دیا ہو شراب میں۔۔۔ لو میں تمہارا جام ِ صحت تجویز کرتی ہوں۔۔۔آئو۔۔۔ میکش پیو۔ امروئی۔ نر دوئی۔ آئو۔۔۔ ہم سب مل کر کہتے ہیں۔ میرے گھنگھروں کی جھنکار میں تمہیں سر مستی ملے گی۔ آج کی رات تمہارے نام۔۔۔ میکشو پیو تم پر ساقی کا کر م ہے آئو۔ پیو وہ شراب کہنہ کہ جو برسوں سے مٹکوں میں اسی مقصد کیلئے رکھی جاتی ہے اور جسے میکش زندگی میں صرف ایک بار ہی پیتا ہے۔
درد کی زنجیر سے ماخوذ۔ ج۔تین چار بار قسمت آزمائی۔ محنت بھی خاصی کی اور صرف اسی روپے ہاتھ آئے۔ حالانکہ بٹوے خاصے موٹے تھے۔ ارے علی محمد آج کل فیشن کا زمانہ ہے۔ لوگ خالی جیبوں میں دل خوش کرنے کیلئے بٹوے رکھتے ہیں تاکہ تمہارے جیسے، ان بٹووں کو دیکھ کر مست ہو جائیں۔ بھائی لوگ بہت ہو شیار ہو گئے ہیں۔ پھر آج کل ہر بس اور ویگن میں یہ جملہ ضرور لکھا ہوتا ہے۔ جیب کتروں سے ہوشیار اس لیے ہم نے اپنے فن کو آزمانا کم کردیا۔ اتنی محنت کرو، جان مصیبت میں ڈالو اور ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔ (مستی سے منتخب)
مذکورہ اقتباسات سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ امین جالندھری ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جو زندگی کی صداقتوں سے قریب تر ہوتے ہیں۔ حقیقت نگاری کا یہ فکر و عمل انہیں اسی لئے اپنے بعض معاصرین سے ممتاز کرتا ہے۔ واضح ہو کہ امین جالندھری اس سماجی حقیقت نگاری کا ڈھنڈورہ نہیں پیٹتے جسے بوجوہ غلط فہمی محض ترقی پسندوں کا کاپی رائٹ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان کا انفرادی طرزِ نگارش انہیں ان انشا پردازوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جن کے دم سے نثرنگاری کی آبرو قائم ہے۔ ان کی نثر میں شاعرانہ عناصر رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ وہی عناصر ہیں جو محمد حسین آزاد، علامہ شبلی نعمانی،مہدی افادی اور نیاز فتح پوری جیسے انشا پردازوں کے یہاںموجود ہیں۔ امین جالندھری اپنی شگفتہ طبعی اور ادب لطیف سے لبریز ایسی تحریریں تخلیق کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، جنہیں پڑھ کر قارئین کی زبانوں سے مرحبا کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں، اس سلسلے میں حرف حرف کہانی کے تمام افسانوی بچے عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ ان کا یہ اسلوب خود ان کی ایجاز ہے کسی معاصر یا ماقبل مصنف کی کروانہ تقلید کا نتیجہ نہیں ۔ جس طرح غزل کا شاعر اشاروں اور کنایوں میں اپنی بات کہنے کا ڈھب جانتا ہے اسی طرح امین جالندھری مختصر مختصر تحریروں میں ایسے اشارہ کر دیتے ہیں کہ جب قارئین اس بابت سوچنے لگتے ہیں تو خود بخود ذہن توجیح و تشریح کے عمل سے گزرنے لگتا ہے۔
اپنے خیالات کو مناسب اور بر محلہ لفظیات کے حوالے سے پیش کرنا مصنفین کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے تاہم “حرف حرف کہانی” کے بیش ہی نہیں بلکہ تمام تر افسانچے اس بابت فتح یابی کے ڈنکے بجاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ راقم الحروف کو کامل یقین ہے کہ یہ مجموعہ امین صاحب کی دوسری کتابوں کی طرح ہی بر صغیر کی انشا پرداز تخلیقات کی بھیڑ میں اپنی انفرادی اور نمائندہ پہچان قائم کرنے میں پیش پیش رہے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...