(Last Updated On: )
کیسے تھے عشق باز جو سر پھوڑتے رہے
ہم پتھروں کے شہر میں دل جوڑتے رہے
گاڑی تھی پنکچول، اسے مس کر سکے نہ ہم
رستوں میں پیچ و خم تھے، مگر دوڑتے رہے
ہم نے دیے جلائے تھے جو راہ میں وہی
رخ آندھیوں کا اپنی طرف موڑتے رہے
بیکار زندگی سے لیا ہم نے انتقام
سگریٹ کے کش لگا کے دھواں چھوڑتے رہے
مانگے سے بھیک رحم کی وہ دیں گے کیا ضیا
پا کے ہمیں جو تنہا، ستم توڑتے رہے
٭٭٭