(Last Updated On: )
دلوں میں درد، سروں میں جو سودا رکھتے تھے
وہی تو پاس زیادہ وفا کا رکھتے تھے
نقاب اُٹھا کے جو آئے تھے انجمن میں، وہی
حجاب دار نگاہوں کا پردہ رکھتے تھے
صلیب و دار پہ ہیں ان کے خون کے بوسے
خدا کے بندے، بھروسہ خدا کا رکھتے تھے
گلی میں، کوچے میں، بازار میں تھی بارش نور
ہمیں تو گھر میں تھے، جن سے وہ پردہ رکھتے تھے
بہار آنے پہ ہم دے کے اپنا خونِ جگر
چمن کی شاخوں پہ کانٹوں کو تازہ رکھتے تھے
نہ تھی خبر کہ د ل سنگ کب دھڑکنے لگے
توقعات کا دامن کشادہ رکھتے تھے
زمانہ سازی دنیا کو جان کر بھی تو ہم
ضیا امیدِ کرم بے ارادہ رکھتے تھے
٭٭٭