(Last Updated On: )
موج غم گل کتر گئی ہو گی
ندی چڑھ کر اتر گئی ہو گی
غرق ہونا تھا جس کو وہ کشتی
ساحلوں سے گزر گئی ہو گی
ہم زمیں والوں کی جو پہلے پہل
آسماں پر نظر گئی ہو گی
آئینہ خانے میں بہ ہر صورت
آب و تاب گہر گئی ہو گی
حادثوں، آفتوں، مصائب سے
زندگی کیا جو ڈر گئی ہو گی
اس سفر میں خلاؤں کے تا دور
حسرت بال و پر گئی ہو گی
اے ضیا، بات عقل و دانش کی
دل کا نقصان کر گئی ہو گی
٭٭٭