(Last Updated On: )
ڈوبتے تاروں، شکست ساز کی باتیں کرو
چارہ ساز و ہمدم و ہمراز کی باتیں کرو
جس کے دم سے ہے دلوں میں تازہ زخموں کی بہار
اس مآلِ شورش آغاز کی باتیں کرو
پاؤں میں زنجیر، لیکن فکر تو آزاد ہے
بامِ گردوں پر اڑو، پرواز کی باتیں کرو
کچھ تو غمہائے زمانہ کا بھی درماں چاہیے
مستیِ چشمِ سراپا ناز کی باتیں کرو
شور و شیون کا اٹھا کر حشر، کیا تم کو ملا
اب کسی بیٹھی ہوئی آواز کی باتیں کرو
پتھروں سے سر کو پھوڑو، جھیلو رسوائی کا غم
کس نے یہ تم سے کہا تھا راز کی باتیں کرو
پھر وہی نا صور کہنہ ہو گیا تازہ ضیا
پھر اسی دیرینہ چارہ ساز کی باتیں کرو
٭٭٭