(Last Updated On: )
بیتے ہوئے لمحات دو بارا مجھے دے دو
بھولی ہوئی یادوں کا سہارا مجھے دے دو
دشوار ہے منزل پہ پہنچنا مرا تنہا
نگلی سے لگا لے وہ سہارا مجھے دے دو
سب ٹُوٹے ہوئے رشتے تو منھ موڑ چکے ہیں
اندر سے مرے کس نے پکارا، مجھے دے دو
پھرتا ہے بھٹکتا ہوا جنگل کی نوا میں
نغمہ جسے میں نے تھا سنوارا، مجھے دے دو
جینے کی کسے فکر ہے، مرنے کا کسے غم
جو میرے مقدّر میں ہے تارا، مجھے دے دو
ساحل ہے نہ ساحل کی تمنّا مرے دل میں
جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو دھارا مجھے دے دو
دیکھو تو مری آنکھوں میں پھر ڈال کر آنکھیں
پھر سرمگیں پلکوں کا اشارا مجھے دے دو
جلوؤں کی جڑیں پھوٹی ہیں خوابوں کے نگر میں
پلکوں پہ سجا لوں وہ نظارا مجھے دے دو
ٹھہری ہوئی جھیلوں نے ڈبویا ہے کئی بار
بہتی ہوئی ندّی کا کنارا مجھے دے دو
لایا ہوں ضیا مانگ کے دل درد کا مارا
سودائے محبّت کا خسارا مجھے دے دو
٭٭٭