(Last Updated On: )
شاخ ارمانوں کی ہری ہی نہیں
آنسوؤں کی جھڑی لگی ہی نہیں
سایۂ آفتاب میں اے رند
تیرگی بھی ہے، روشنی ہی نہیں
قیدِ ہستی سے کس طرح چھوٹیں
راہ کوئی فرار کی ہی نہیں
میرے شعروں میں زندگی کی ہے
وہ حقیقت جو شاعری ہی نہیں
وہ ہُنر آدمی کی فطرت ہے
جو ہُنر عیب سے بری ہی نہیں
دھرم، آدم گری سکھاتا ہے
صرف تقسیم آدمی ہی نہیں
گنتا ہوں دل کی دھڑکنیں کہ ابھی
تُو نے آواز مجھ کو دی ہی نہیں
اسے عرفا نِ زہد کیا ہو ضیا
مست آنکھوں سے جس نے پی ہی نہیں
٭٭٭