(Last Updated On: )
پردۂ رخ اٹھا دیا، تاب نظر نہ جائے کیوں
آنکھ خراب دید کی اشکوں سے بھر نہ جائے کیوں
فصل بہار جا چکی، پھولوں میں رنگ ہے نہ بو
نشہ جو تھا چڑھا ہوا، سر سے اتر نہ جائے کیوں
آہ، یہ تیرگیِ شب، اف، یہ سُکوت مستقل
دل مرا ہیبت آشنا، سائے سے ڈر نہ جائے کیوں
حُسن و شباب کی قسم، جام و شراب ہیں بہم
گردشِ مہر و ماہ بھی آج ٹھہر نہ جائے کیوں
نامہ بروں کو کیا ہوا، بیٹھے ہیں پر شکستہ سے
ان کی خبر نہ آئے کیوں، میری خبر نہ جائے کیوں
وقت کا سیل دم بدم، شام و سحر رواں دواں
وقت گزر ہی جائے گا، وقت گزر نہ جائے کیوں
بزمِ حیات کی یہی رسم قدیم ہے ضیا
سر بفلک جو آئے وہ خاک بسر نہ جائے کیوں
٭٭٭