(Last Updated On: )
ننگی ٹہنی کی پیاس کچھ بھی نہیں
شجر بے لباس، کچھ بھی نہیں
گرتی دیواریں، ٹُوٹتے رشتے
فاصلوں کی اساس، کچھ بھی نہیں
جان تھی ایک، سو تجھے دے دی
سچ ہے، اب میرے پاس کچھ بھی نہیں
تُو ذرا اپنی ذات میں تو اتر
آس، امید، یاس، کچھ بھی نہیں
رہزنی نے مچائی ہے وہ لوُٹ
رہنماؤں کا پاس، کچھ بھی نہیں
راز کھولا، کھُلی ہواؤں نے
بند کمروں کی آس کچھ بھی نہیں
اے ضیا، پتھروں کی بستی میں
کانچ کا یہ گلاس کچھ بھی نہیں
٭٭٭