(Last Updated On: )
دردیلے گیت اُن کو بھری محفل میں سناتے ڈرتا ہوں
دل کے رستے زخموں کو بازار میں لاتے ڈرتا ہوں
جلتی دھوپ کے سائے میں جنما ہوں، مرنا بھی ہے مگر
ٹھنڈے کالے سورج میں کیوں آگ لگاتے ڈرتا ہوں
جن میں مجھے ایک ایک قدم پر نا کامی، رسوائی ملی
شہر جنوں کے اُن کوچوں میں آتے جاتے ڈرتا ہوں
عقل کی حق گوئی پہ بھروسہ ہو نہ مجھے ایسا تو نہیں
کچھ ایسی ہی بات ہے جو دل کو سمجھاتے ڈرتا ہوں
ہجر کا موسم کیا آیا، پھولوں کی رعنائی بھی گئی
آہیں بھرتے، نالے کرتے، اشک بہاتے ڈرتا ہوں
کس سے پوچھوں، کون بتائے، صبح ہوئی تو کیا ہو گا
مدّت سے جو بجھے ہوئے تھے دیے جلاتے ڈرتا ہوں
خود کو کھو کر ہی میں نے اک دن پا یا تھا اُن کو ضیا
لیکن اب ان کو کھو کر میں خود کو پاتے ڈرتا ہوں
٭٭٭