(Last Updated On: )
دل میں گنجینۂ جذبات لئے پھرتے ہیں
حسرت ذوقِ ملاقات لئے پھرتے ہیں
ان کا دامن نظر آئے تو کریں نذر اس کی
پلکوں پر اشکوں کی سوغات لئے پھرتے ہیں
مژدۂ منزل خورشید نہ دے ہم کو فریب
اپنے ہمراہ ابھی رات لئے پھرتے ہیں
پھر وہی آئینہ خانہ ہے، وہی عکس جمال
پھر وہی صورت حا لات لئے پھرتے ہیں
ان صلیبوں کا صحیفوں میں کہیں ذکر نہیں
ہم جنہیں دوش پہ دن رات لئے پھرتے ہیں
پیاسی دھرتی پہ برس کر ہی بنیں گے دریا
بادل آنکھوں میں جو برسات لئے پھرتے ہیں
کتنے بھولے ہیں کہ بیداری تفریق میں وہ
اے ضیا، خواب مساوات لئے پھرتے ہیں
٭٭٭