(Last Updated On: )
حال دل اُن سے کسی حال میں کہنے نہ دیا
مجھے حا لات نے خاموش بھی رہنے نہ دیا
بستیاں دل کی بسا کر بھی رہا وہ ویراں
جنگلوں میں اسے صحراؤں نے رہنے نہ دیا
تپشِ دل کو دعا دیتا ہوں، اے دل، جس نے
دھوپ کے شہر میں سایہ کہیں رہنے نہ دیا
یوں تو میری ہی کہانی تھی لب دنیا پر
کچھ مگر میری زباں سے مجھے کہنے نہ دیا
حشر اٹھا یا تھا دل و جاں میں شب غم جس نے
رگ احساس پہ اُس چوٹ کو سہنے نہ دیا
داغِ دل بن کے ہوا قبلہ نما مثل سحر
قطرۂ اشک، جسے آنکھ سے بہنے نہ دیا
موج طوفاں پہ ضیا، تہمت غرقابی ہے
کشتیاں ڈوب گئیں جب انھیں بہنے نہ دیا
٭٭٭