(Last Updated On: )
خالی پنجرا چھوڑ کے پنچھی اُڑ ہی گیا
سیدھا بہتا دریا آخر مُڑ ہی گیا
تم نے ہمدردی جو دکھائی، ٹوٹ کے پھر
میرے دل کا آئینہ بھی جُڑ ہی گیا
کوئی ہوا کا جھونکا تھا جو ہولے سے
دروازے پر دستک دے کے مُڑ ہی گیا
پیغامِ شیریں کی تلخی پوچھ نہ کچھ
لے کے ساتھ نہ کیوں نامہ بر کڑ ہی گیا
پوچھتا تھا آنے والے کا اتا پتا
کائیں کائیں کرتا کوّا اُڑ ہی گیا
پا کے خزانہ قاروں کا خوش تھا لیکن
بانٹنے جب بیٹھا تو وہ بھی تھُڑ ہی گیا
اوٹ سے چلمن کی اس نے جھانکا تھا ضیا
چہرۂ گل کا رنگ چمن میں اُڑ ہی گیا
٭٭٭